کتاب: محدث شمارہ 43 - صفحہ 16
کہ تم دونوں کو بہشت سے نکلوا باہرکرے اور تمہاری شامت آجائے۔ پھر اپنے اپنے وقت پر سب لوگوں سے بھی فرمایا کہ یہ تمہارا دشمن ہے۔ اے ابن آدم ہوشیار: ﴿ يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ادْخُلُوا فِي السِّلْمِ كَافَّةً وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ﴾ (پ۲ ۔بقرہ ع۲۵) لوگو! اسلام میں پورے پورے آجاؤ اور شیطان کے نقوش پا کا اتباع نہ کرو، وہ تمہارا ظاہر ظہور دشمن ہے۔ اسلام میں پورے پورے آجاؤ : اس لیےکہا کہ اگر کوئی شخص پورا پورا ’’ابولہب اور ابوجہل‘‘ نہیں بن جاتا تو شیطان اتنے پر بھی راضی ہوجاتا ہے کہ رحمٰن کے ساتھ شیطان کی بھی کچھ بات مان لی جائے کیونکہ جو شخص ایک قدم میخانہ میں رکھ لیتا ہے ، اس میں پورے پورے داخل ہوجانے کا امکان بھی قوی ہوجاتا ہے۔ ﴿ يَابَنِي آدَمَ أَنْ لَا تَعْبُدُوا الشَّيْطَانَ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ ﴾ (پ۲۳۔ یسٰن ع۵) اے اولاد آدم! شیطان کی غلامی اختیار نہ کرنا، وہ تمہارا کھلا کھلا دشمن ہے۔ اب شیطان آتا ہے: اس اعلان جنگ کے بعد شیطان اپنے منصوبے کی تکمیل کے لیے میدان میں اترتا ہے اور سب سے پہلے مسجود ملائکہ (حضرت آدم علیہ السلام کو ہدف بناتا ہے مگرنہایت معصومانہ طریقے کے ساتھ قلب و نگاہ کے خفیہ گوشوں میں اترتا ہے اور ان کے جذبات میں ایک تحریک پیدا کرتا ہے اور حضرت آدم علیہ السلام کی طرف وسوسے کا تیر پھینکتا ہے۔ ﴿فَوَسْوَسَ إِلَيْهِ الشَّيْطَانُ ﴾ (پ۱۶۔طہٰ ع۷)اور ساتھ حضرت حوّا کو بھی اس وسوسہ میں شریک کرلیتا ہے۔﴿ فَوَسْوَسَ إِلَيْهِ الشَّيْطَانُ ﴾ (پ۸۔اعراف ع۲)مگر بقائے دوام، بادشاہت اور قرب الہٰی کے نام پر طرح ڈالتا ہے۔ ﴿يَاآدَمُ هَلْ أَدُلُّكَ عَلَى شَجَرَةِ الْخُلْدِ وَمُلْكٍ لَا يَبْلَى ﴾ (پ۱۶۔طہٰ ع۷) اے آدم! کہو تو میں آپ کو ہمیشگی کا درخت بتا دوں (کہ جس کو کھا کر سدا جیتے رہو)اور ایسی سلطنت جو کبھی کہنہ نہ ہو۔ یہاں پر اسی درخت کی طرف لے جایا جارہا ہے ، جس سے اس کوروکا گیا تھا تاکہ اس کو اس جنت سے نکال باہر کیا جائے۔ اب سوال پیدا ہوتا تھا کہ اس درخت سے تو خدا نےمنع کیا ہے، وہ میری بقا نے دوام اور لازوال بادشاہت کا سبب کیسےبن سکتا ہے؟ اس خلش کو دور کرنے کے لیے