کتاب: محدث شمارہ 43 - صفحہ 14
پھر ان کو ان کے سامنے سے آلوں گا اور(کبھی)ان کے پیچھے سے (آؤں گا)اور (کبھی)ان کے داہنے سے اور (کبھی)ان کے بائیں گے (ان کوآگھیروں گا) میں ان کو ہر بُرائی ، ہر زہر آب حیات، ہرحماقت، عقل و دانش، ہر ذلالت، عزت اور ہر شقاوت، سعادت بنا کر دکھاؤں گا۔ ﴿ لَأُزَيِّنَنَّ لَهُمْ فِي الْأَرْضِ وَلَأُغْوِيَنَّهُمْ أَجْمَعِينَ﴾ (پ۱۴۔ الحجر ع۳) ہاں تیرے خاص بندوں پرمیرا کچھ بس نہیں چلے گا۔ ﴿ إِلَّا عِبَادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ ﴾ (ایضاً) معلوم ہوا کہ اگر ’’عبدیت‘‘ میں رمق اور صبغۃ اللہ میں جان ہو، تو شیطان بھی ہو تو بھی اس کے اعتراف کے بغیر اسے چارہ نہیں ہوتا۔ شیطان نے خدا کی بستی کا انکار نہیں کیا بلکہ’’بلاچون و چرا‘‘ اس کے احکام کی تعمیل میں اس کو تامل تھا۔ اگر یہ کہا جائے کہ اس کو ’’ضد‘‘ ایمان سے پیاری تھی تو بے جا بات نہ ہوگی۔ پھر وہ یوں للکارا: ﴿وَقَالَ لَأَتَّخِذَنَّ مِنْ عِبَادِكَ نَصِيبًا مَفْرُوضًا () وَلَأُضِلَّنَّهُمْ وَلَأُمَنِّيَنَّهُمْ وَلَآمُرَنَّهُمْ فَلَيُبَتِّكُنَّ آذَانَ الْأَنْعَامِ وَلَآمُرَنَّهُمْ فَلَيُغَيِّرُنَّ خَلْقَ اللَّهِ﴾ (پ۵۔ النساءع۱۸) اور وہ (شیطان)کہہ چکا ہے کہ میں آپ نے بندوں سے ایک مقرر حصہ لے کر رہوں گا، میں ان کو بہکاؤں گا اور انہیں آرزوؤں میں چور رکھوں گا اور ان کو سکھاؤں گا کہ وہ جانوروں کے کان چیریں اور ان کو سکھاؤں گا کہ اللہ کی بنائی ہوئی صورتیں بدلیں ۔ مقرر حصہ سے مراد ہے کہ ، وہ جو بھی کام کریں اس میں شیطنت کی آمیزش ضرور ہو، اب یہ آپ دیکھ لیں کہ ہمارا کون سا کام بیداغ رہ گیا ہے۔ بہکانا اور گمراہ کرنا یہ ہے کہ، ان کی زندگی کا پہیہ پٹڑی سے اتار دوں گا یا غلط سمت پر ڈال دوں گاکہ وہ عمر بھر سفر جاری بھی رکھیں تو منزل کا سراغ نہ پاسکیں ۔ جانوروں کے کان چیرنے کے معنی، اوہام پرستی کی بیماری میں مبتلا کرنا ہے اور تغیر خلق اللہ سے مراد تکوینی اور تشریعی پہلو میں تغییر برپا کرنا ہے، جیسی شکل و صورت بنا کر رہنے کا حکم ہے اس میں اپنی مرضی سے ردوبدل کرنا اور اسلامی نظام زندگی میں ’ّخانہ زاد ٹانکے‘‘ لگانا شریعت میں ترمیمیں اختیار کرنا، یہ سب امور ’’تغییر خلق اللّٰہ ‘‘ کے تحت آتے ہیں ۔