کتاب: محدث شمارہ 43 - صفحہ 13
﴿ قَالَ أَنْظِرْنِي إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ ﴾ (پ۱۴۔ الحجرع۳)’’اے میرے رب! قیامت تک کے لیے مجھے مہلت دیجئے۔‘‘ اللہ نےفرمایا:جاؤ تمہاری درخواست منظور! ﴿ قَالَ فَإِنَّكَ مِنَ الْمُنْظَرِينَ ﴾ (پ۲۳۔ ص ع۵) مہلت ملنے پر میدان میں اتر آیا اور جس عظیم ہستی کی وجہ سے اس کی تنزلی ہوئی، اس کو بام اوج سے پٹخ کرنیچے دےمارنے کا اعلان کردیا، اور کہا : (حضور!)تیرے جلال کی قسم! ان سب کا بیڑا غرق (گمراہ)کرکے دن نہ ہوں تو داغ نام نہیں ۔ ﴿فَبِعِزَّتِكَ لَأُغْوِيَنَّهُمْ أَجْمَعِينَ ﴾ (پ۲۳۔ ص ع۵) ’’فبعزتک‘‘ کے جملہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ : شیطان ، رب اور اس کے جلال کا منکر نہیں تھا بلکہ اس کا احترام بھی اس کے دل میں تھا مگر بزعم خویش اپنے حقوق کے لیے خدا سے اُلجھنے یااس کو سمجھانے کو بُرا نہیں سمجھتا تھا اور نہ یہ بات اس کو احترام اور ادب کے منافی نظر آتی تھی۔ جو لوگ خدا کومان کر اس کے احکام سے راہ فرار اختیار کرتے ہیں ، وہ بھی دراصل اسی شیطانی راہ پرپڑ جاتے ہیں ، آج کل کاروباری اور جاہ پرست سیاست باز لوگ اس مرض میں زیادہ مبتلا ہیں ۔ ﴿أَرَأَيْتَكَ هَذَا الَّذِي كَرَّمْتَ عَلَيَّ لَئِنْ أَخَّرْتَنِ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ لَأَحْتَنِكَنَّ ذُرِّيَّتَهُ إِلَّا قَلِيلًا ﴾ (پ۱۵۔ بنی اسرائیل ع۷) (حقارت آمیز اشارہ کرکے خدا سے )کہا کہ بھلا دیکھئے تو ، یہی وہ شخص ہے جس کو تو نے مجھ پر چڑھایا ہےاگر تو نے قیامت تک مہلت دی تو اس کا صفایا کردوں گا (جیسے کھیت کا ٹڈی کرتی ہے)ہاں تھوڑے سے رہ جائیں گے۔ وہ کیسے؟ شیطان، شیطان ہوکر صاف گو اتنا ہے کہ اس نے اپنے ’’رقیب (آدم)‘‘ کو مات دینے کے لیے جو جو ہتھکنڈے استعمال کرنا تھے، اس کے تفصیلی خاکہ کا بھی اسی دن اعلان کردیا، چنانچہ کہا: الہٰی جو راہ تیری طرف جاتی ہے، اس پربیٹھ رہوں گا، پھر ان میں سے ہر آنے جانے والے کا تعاقب کروں گا اور چاروں طرف سے گھیر کر اسےبرباد کروں گا۔ ﴿قَالَ فَبِمَا أَغْوَيْتَنِي لَأَقْعُدَنَّ لَهُمْ صِرَاطَكَ الْمُسْتَقِيمَ () ثُمَّ لَآتِيَنَّهُمْ مِنْ بَيْنِ أَيْدِيهِمْ وَمِنْ خَلْفِهِمْ وَعَنْ أَيْمَانِهِمْ وَعَنْ شَمَائِلِهِمْ ﴾ (پ۸۔ الاعراف ع۷) بولا: کہ جیسی آپ نے میری راہ ماری ہے میں تیری ’’راہ مستقیم‘‘ پران کی گھات میں لگا رہوں گا۔