کتاب: محدث شمارہ 43 - صفحہ 12
حق سے فرار کے لیے فلسفہ: غلام کا کام آقا کی غلامی ہوتی ہے، خانہ ساز فلسفہ چھانٹنا اور تولنا نہیں ہوتا۔
﴿ وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ ﴾ (پ۲۷۔ الذاریات ع۳)
خداکا حکم ہوا آدم کو سجدہ کیجئے! خوئے بدرا بہانہ بسیار! بولا:
جناب! کچھ تو سوچئے! وہ مٹی سے بنا اور میں سر تا پا روشن آگ سے، ایک بہتر شے ادنیٰ کے سامنے جھکے ، قدر شناسی نہیں ۔
﴿قَالَ مَا مَنَعَكَ أَلَّا تَسْجُدَ إِذْ أَمَرْتُكَ قَالَ أَنَا خَيْرٌ مِنْهُ خَلَقْتَنِي مِنْ نَارٍ وَخَلَقْتَهُ مِنْ طِينٍ ﴾ (پ۸۔ اعراف ع۲)
(اے خدا کچھ تو سوچیئے)کیا میں اسے سجدہ کروں جسے تو نے مٹی سے پیدا کیا۔
رب کے حکم سے تجاوز کرگیا۔
﴿فَفَسَقَ عَنْ أَمْرِ رَبِّهِ ﴾ (پ۱۵۔ الکہف ع۷)
تجاوز کرگیا کہا، پیچھے رہ گیا نہیں کہا، کیونکہ وہ رب کوسمجھانے لگا تھا، جیسے خدا وہ راز نہیں سمجھ سکا اور یہ لعین سمجھ گیا ہے ۔ دور حاضر میں سب خطرناک فتنہ رب کو یہی لقمے دینے کی ریت اور حق سے فرار کرنےکے لیےفلسفہ بازی ہے۔
تکبر اور تحقیر آمیز اِبا : حدود اللہ سے یہ تجاوز کسی دلیل کانتیجہ نہیں تھا بلکہ اپنی برتری کے خبط کانتیجہ تھا۔ ﴿أَبَى وَاسْتَكْبَرَ ﴾ (پ۱ بقرہ ع۴)اِبا اس تحقیر آمیز انکار کو کہتے ہیں جو کسی شے کو اپنے مقابلے میں ردی سمجھنے اور اس سے نفرت کرنے کے جذبہ نفرت پر مبنی ہو۔
الایاء:ھو الامتناع عن الشی والکراھیتہ لہ بغضہ و عدم ملائمتہ (تاج العروس)
گویا اس نے حضرت آدم کو حقیر جانا، اس سے نفرت کی اور پھر تندی کے ساتھ اس کی تعظیم کرنےسے انکار کردیا۔
یہاں سے نکل جاؤ: حکم ہوا، اےگستاخ یہاں سے نکل جاؤ!
﴿فَاخْرُجْ مِنْهَا فَإِنَّكَ رَجِيمٌ ﴾ (پ۲۳۔ ص ع۵)
تم پر قیامت تک میری لعنت: ﴿ وَإِنَّ عَلَيْكَ لَعْنَتِي إِلَى يَوْمِ الدِّينِ ﴾ (ایضاً)
حق کو دبانے کے لیے سازشیں : بسا اوقات وقتی تحریک اور انگیخت کی بنا پر ایسی گستاخی کا صدور ممکن ہوتا ہے لیکن وضوح غلطی کے بعد حق کی راہ مارنے کے لیے اور تن جانا، سب سے بڑی محرومی ہوتی ہے، یہی حال شیطان کا ہے کہ : دھتکارے جانے کے بعد اس نے پہلے رب سےمہلت مانگی۔