کتاب: محدث شمارہ 42 - صفحہ 9
﴿اَمْ نَجْعَلُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوْا الصّٰلِحٰتِ کَالْمُفْسِدِیْنَ فِی الْاَرْضِ﴾ (پ۲۲۔ ص ع۲) ظہور نتائج کے وقت منت سماجت کچھ کام نہیں آتی۔ ﴿آلْئٰنَ وَقَدْ عَصَیْتَ قَبْلُ وَکُنْتَ مِنَ الْمُفْسِدِیْنَ﴾ (پ۱۱۔ یونس۔ ع۹) اب (کہتا ہے کہ میں مان گیا)حالانکہ اس سے پہلے تو نافرمانی کرتا رہا اور مفسدوں میں رہا۔ فساد فی الارض کے بد نتائج سے بچنے کا یہ طریقہ ہے کہ اس سے توبہ کی جائے اور فساد فی الارض کی راہ چھوڑ دی جائے۔ ﴿لَا تُفْسِدُوْا فِیْ الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِھَا وَادْعُوْہُ خَوْفًا وَّطَمَعًا اِنَّ رَحْمَۃَ اللّٰہِ قَرِیْبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِیْنَ﴾ (پ۸۔ الاعراف۔ ع۷) اصلاح کے بعد فساد فی الارض سے باز آجائیں اور اس کو امید و بیم میں پکارتے جائیں ۔ نیکو کاروں سے اللہ کی رحمت قریب ہے۔ اس کی راہ میں جہاد کیا جائے کیونکہ اللہ کی یہ سنت ہے کہ روئے زمین کا بگاڑ اسی طرح دور کیا کرتا ہے۔ ﴿وَلَوْ لَا دَفْعُ اللّٰہِ النَّاسَ بَعْضَھُمْ بِبَعْضٍ لَّفَسَدَتِ الْاَرْضُ﴾ (پ۲۔ بقرہ۔ ع۳۳) اگر ایک کو دوسرے سے دفع کرا دینا اللہ کا دستور نہ ہوتا تو زمین خراب ہو جاتی۔ امر بالمعروف کا وطیرہ اختیار کیا جائے۔ فساد اور مفسدوں نے جو خرابیاں پیدا کر دی ہیں اس کے ذریعے ان کو دور کیا جائے۔ ﴿فَلَوْ لَا کَانَ مِنَ الْقُرُوْنِ مِنْ قَبْلِکُمْ اُوْلُوْا بَقِیَّۃٍ یَّنْھَوْنَ عَنِ الْفَسَادِ فِیْ الْاَرْضِ اِلَّا قَلِیْلًا مِّمَنْ اَنْجَیْنَا مِنْھُمْ﴾ (پ۱۲۔ ھود۔ ع۱۰) سو کیوں نہ ہوئے، ان جماعتوں میں ، جو تم سے پہلے تھیں ایسے لوگ جن میں خیر کا اثر رہا ہو کہ منع کرتے رہتے فساد فی الارض سے مگر تھوڑے کہ جن کو ان میں سے ہم نے بچا لیا۔