کتاب: محدث شمارہ 42 - صفحہ 8
اِصْلَاحِھَا ذٰلِکُمْ خَیْرٌ لَّکُمْ اِنْ کُنتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ. وَلَا تَقْعُدُوْا بِکُلِِّ صِرَاطٍ تُوْعِدُوْنَ وَتَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ مَنْ اٰمَنَ بِہ وَتَبْتَغُوْنَھَا عِوَجًا ج وَاذْکُرُوْا اِذْ کُنْتُمْ قَلِیْلًا فَکَثَّرَکُمْ وَانْظُرُوْا کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الْمُفْسِدِیْنَ.﴾ (پ۸۔ الاعراف۔ ع۱۱) حق کو نہ ماننا اور وحی پر ایمان نہ لانا بھی ’’فساد‘‘ ہے۔ ﴿وَمِنْھُمْ مَنْ یُّؤْمِنُ بِہ وَمِنْھُمْ مَنْ لَّا یُؤْمِنُ بِہ وَرَبُّکَ اَعْلَمُ بِالْمُفْسِدِیْنَ﴾ (پ۱۱۔ یونس۔ ع۴) ان میں سے کچھ تو قرآن کا یقین کریں گے اور بعض ان میں سے اس کا یقین نہیں کریں گے۔ اور آپ کا رب مفسدوں کو خوب جانتا ہے۔ وحی قرآنی پر ایمان نہ لانے کے معنی ہیں کہ وہ اپنی خواہشات، ملکی آئین، جمہوری رائے اور دوسروں کے خیالات کا اتباع کریں گے، ظاہر ہے کہ فساد کی جڑ بھی یہی بے یقینی، کمزوری اور چار سورُخ کر کے دوڑنا۔ مفسدین کا اتباع بھی ’’فساد فی الارض‘‘ کے مترادف ہے، کیونکہ اہلِ فساد جو ہنگامے، بگاڑ اور خرابیاں پیدا کرتے ہیں ، وہ اپنے حلقہ بگوشوں کے بل بوتے پر ہی تو کرتے ہیں اس لئے فرمایا ان کا اتباع نہ کیا کریں ۔ ﴿وَلَا تَتَّبِعْ سَبِیْلَ الْمُفْسِدِیْنَ﴾ (پ۹۔ اعراف۔ ع۱۷) (حضرت موسیٰ نے حضرت ہارون سے فرمایا)اور مفسدوں کی راہ پر مت چلنا۔ منکرینِ حق کی دوستی بھی فساد فی الارض کا ایک عنوان ہے۔ ﴿وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا بَعْضُھُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍ اِلَّا تَفْعَلُوْہُ تَکُنْ فِتْنَۃٌ فِی الْاَرْضِ وَفَسَادٌ کَبِیْرٌ ﴾(پ۱۰۔ التوبۃ ع۱۰) جو منکرین حق ہیں ، وہ ایک دوسرے کے رفیق ہیں ۔ اگر تم یوں نہ کرو گے تو ملک میں فتنہ پھیلے گااور بڑی خرابی ہو گی۔ اور اس کے نتیجے میں عذاب پر عذاب کے امکانات بڑھ جاتے ہیں ۔ ﴿اَلَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَصَدُّوْا عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ زِدْنٰھُمْ عَذَابًا فَوْقَ الْعَذَابِ بِمَا کَانُوْا یُفْسِدُوْنَ﴾ (پ۱۴۔ النحل۔ ع۱۲) جو اہل فساد ہیں وہ صالحین کی طرح نہیں ہو سکتے اور نہ ہی دونوں کے ساتھ خدا تعالیٰ ایک جیسا معاملہ کرے گا۔