کتاب: محدث شمارہ 42 - صفحہ 7
دینی تحریک کے خلاف سازشیں کرنا بھی فساد فی الارض ہے چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مقابلے میں جادوگروں کو لاکھڑا کرنا فرعون کی ایک چال تھی اور جو لوگ اس ڈھب سے چھا جانے کے منصوبے رکھتے ہیں حق تعالیٰ ان سے ’عمل صحیح‘ کی توفیق بھی چھین لیتا ہے۔ اس لئے اس کے آخر میں فرمایا: ﴿اِنَّ اللّٰہَ لَا یُصْلِحُ عَمَلَ الْمُفْسِدِیْنَ﴾ (پ۱۱۔ یونس۔ ع۸) ’اللہ تعالیٰ مفسدین کے عملوں کو نہیں سنوارتا۔‘ اصل میں ’حق‘ کو اپنی خواہشات کے مطابق ڈھالنا ایک ایسا ’نظامِ تخریب‘ ہے۔ جس میں آسمان و زمین اور مافیہا کی خرابی اور بگاڑ مضمر ہے۔ ﴿وَلَوِ اتَّبَعَ الْحَقُّ اَھْوَآءَھُمْ لَفَسَدَتِ السَّمٰوٰتُ وَالْاَرْضُ وَمَنْ فِیْھِنَّ﴾ (پ۱۸۔ المومنون۔ ع۴) اگر حق (یعنی حق تعالیٰ)ان کی خوشی اور منشاء کے تابع ہو جائے تو آسمان و زمین اور مافیہا خراب ہوجائیں ۔ یہ تو یوں ہوا جیسے دو خدا، اور اس کا جو انجام ہو سکتا ہے وہ ظاہر ہے یعنی زمین و آسمان کی مکمل تباہی اور بگاڑ۔ ﴿لَو کَانَ فِیْھِمَا اٰلِھَۃٌ اِلَّا اللّٰہُ لَفَسَدَتَا ﴾(پ۱۷۔ الانبیاء۔ ع۲) ارباب اقتدار کا یہ دستور رہا ہے کہ عوام کو مذہب کے نام پر بھڑکاتے ہیں کہ فلاں شخص تمہارے مذہب کی روح کوکچلنا چاہتا ہے۔ پھر امنِ عامہ کے نام پر ان کے خلاف چکر چلاتے ہیں اور صلحاء اور اتقیاء کو قتل کی دھمکیاں تک دے ڈالتے ہیں ۔ ﴿وَقَالَ فِرْعَوْنُ: ذَرُوْنِیْ اَقْتُلْ مُوْسٰی وَلْیَدْعُ رَبَّہط اِنِّیْ اَخَافُ اَں یُّبْدِّلَ دِیْنَکُمْ اَو اَنْ یُّظْھِرَ فِی الْاَرْضِ الْفَسَاد ﴾(پ۲۴۔ المومن ع۳) اور فرعون بولا: ہٹ جاؤ! مجھے اسے قتل کرنے دو اور اسے چاہئے کہ اپنے رب کو پکارے (کہ وہ اسے مجھ سے بچا لے)مجھے اندیشہ ہے کہ وہ تمہارا دین نہ بدل ڈالے یا ملک میں کوئی فساد نہ برپا کر ڈالے۔ ناپ تول میں کمی بیشی کرنا، راہ مارنا، حق سے روکنا اور ٹیڑھی راہوں پر لوگوں کو ڈالنا بھی فساد فی الارض ہے۔ ﴿فَاوْفُوْا الْکَیْلَ وَالْمِیْزَانَ وَلَا تَبْخَسُوْا النَّاسَ اَشْیَآءَھُمْ وَلَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ بَعْدَ