کتاب: محدث شمارہ 42 - صفحہ 6
سرمایہ دار عموماً قارونی خدوخال لے کر آتا ہے، خدا ان سے مطالبہ کرتا ہے کہ، اللہ نے جو دیا ہے کھاؤ پیو، لیکن خلقِ خدا کے لئے وبال نہ بنو بلکہ اسے آخرت کے لئے زینہ بناؤ۔ ﴿وَابْتَغِ فِیْمَآ اٰتٰکَ اللّٰہُ الدَّارَ الْاٰخِرَۃَ وَلَا تَنْسَ نَصِیْبَکَ مِنَ الدُّنْیَا وَاَحْسِنْ کَمَآ اَحْسَن اللّٰہُ اِلَیْکَ وَلَا تَبْغِ الْفَسَادَ فِی الاَرْضِ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الْمُفْسِدِیْنَ﴾ (پ۲۰۔ قصص۔ ع۸) جو کچھ تمہیں اللہ نے دیا ہے اس سے آخرت کما لے اور دنیا سے اچھا حصہ نہ بھول اور (لوگوں کے ساتھ)اچھا معاملہ کر جس طرح اللہ نے تیرے ساتھ کیا ہے اور ملک میں خرابی (فساد)نہ ڈال، اللہ تعالیٰ تخریب کاروں کو پسند نہیں کرتا۔ اہلِ ثروت عموماً اربابِ اختیار کے خوشامدی نکلتے ہیں ۔ اس لئے تخریب کار اربابِ اختیار کے ساتھ سرمایہ دار بھی مل جاتے ہیں ، پھر وہی کچھ ہوتا ہے جو ملک اور قوم دونوں کے لئے آزار دہ ہوتا ہے۔ سماج دشمن عناصر کی سرپرستی کے لئے یہ سرمایہ دار لوگ ہی برے حکمرانوں کو سرمایہ مہیا کیا کرتے ہیں ۔ حضرت صالح علیہ الصلوٰۃ والسلام کی قوم میں ، نو سرغنے تھے جن کا کام فساد برپا کرنا تھا۔ یہ نو سردار حضرت صالح علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دینی تحریک کے خلاف سازشیں کیا کرتے تھے۔ ﴿وَکَانَ فِیْ الْمَدِیْنَۃِ تِسْعَۃٌ رَھْطٍ یُّفْسِدُوْنَ فِی الْاَرْضِ وَلَا یُصْلِحُوْنَ. قَالُوْا تَقَاسَمُوْا بِاللّٰہِ لَنُبَیِّتَنَّہ واَھْلَہ ثُمَّ لَنَقُوْلَنَّ لِوَلِیِّہ مَا شَھِدْنَا مَھْلِکَ اَھْلِہ وَاِنَّا لَصٰدِقُوْنَ ﴾(پ۱۶۔ النمل۔ ع۴) شہر میں نو شخص تھے جن کا کام اصلاح نہیں فساد فی الارض تھا، بولے کہ آپس میں اللہ تعالیٰ کی قسم کھاؤ کہ رات کو ہم ان پر اور ان کے گھر میں ضرور جا پڑیں گے اور پھر جو اس کی طرف سے مدعی ہو گا ان سے کہہ دیں گے کہ ہم نے ان کے گھر کی تباہی کا مشاہدہ نہیں کیا اور یقین کیجئے! ہم سچے ہیں ۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ خود حضور کے زمانے میں حضور کے خلاف سازش کرنے والے بھی نو سردار ہی تھے۔ اصل بات یہ ہے کہ سرداری اور اقتدار اللہ کا فضل ہے بشرطیکہ خدا کی غلامی کا طوق بھی گلے میں ہو، ورنہ یقین کیجئے! اس سے بڑھ کر انسان کے لئے اور کوئی فتنہ نہیں ہے۔ دنیا اور آخرت دونوں یا کم از کم ان میں سے ایک کا انجام تو ضرور ہی عبرت آموز ثابت ہوتا ہے۔