کتاب: محدث شمارہ 42 - صفحہ 5
قرآن حکیم نے فرعون کی کچھ شرارتوں اور تخریب کاریوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ وہ اپنی برتری کے خبط میں مبتلا تھا۔ ’’لڑاؤ اور حکومت کرو‘‘ کے اصول کے مطابق عوام کو تفرقہ بازی کا خوگر بنا دیا تھا، اپنی راہ میں جسے سنگِ گراں تصور کرتا، اس کو ہٹانے کے لئے پوری قوم کے گلے پر چھری پھیرنے سے دریغ نہیں کیا کرتا تھا۔ ﴿اِنَّ فِرْعَوْنَ عَلَا فِی الْاَرْضِ وَجَعَلَ اَھْلَھَا شِیَعًا یَّسْتَضْعِفُ طَآئِفَۃً مِّنْھُمْ یُذَبِّحُ اَبْنَآءَھُمْ وَیَسْتَحْی نِسَآءَھُمْ اِنَّہ کَانَ مِنَ الْمُفْسِدِیْنَ﴾ (پ۲۰۔ القصص۔ ع۱) یقین کیجئے! فرعون (خدا کی)زمین پر سرکش ہو گیا اور ملک کے باشندوں کو تتر بتر کر رکھا تھا۔ جس سے اس کی غرض یہ تھی کہ)ان میں سے ایک گروہ کو کمزور رکھے، ان کے بیٹوں کو ذبح کرتا تھا اور ان کی عورتوں کو زندہ رکھتا تھا، یہ واقعہ ہے کہ وہ اہلِ فساد میں سے تھا۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ فرعون کے کان میں یہ بات پڑ گئی تھی کہ بنی اسرائیل کے ایک جوان کے ہاتھوں اس کی تباہی ہو کر رہے گی، چنانچہ اپنی اصلاحِ حال کے بجائے اس نے یہ طے کر لیا کہ، اب اس قوم کے کسی فرزند کو زندہ نہ رہنے دیا جائے۔ جو لوگ اپنے اقتدار کی عمر کی درازی کے لئے اس قسم کے پاپڑ بیلنے میں مصروف رہتے ہیں ، عموماً ان کا انجام اور حشر نہایت ہی عبرتناک نکلا ہے۔ مگر افسوس! اس کے باوجود جو بھی آتا ہے، وہ اندھا ہو جاتا ہے، اور وہ ان سے کوئی عبرت حاصل نہیں کرتا۔ اس لئے ان پر جو مصیبت آتی ہے، اچانک آتی ہے اور اسے اُٹھا کر یوں پھینک دیتی ہے جیسے روڑوں کا کوئی کوڑا ہو۔ قرآن حکیم اربابِ اقتدار کے اس اندھے پن اور تخریب کاری کا ذِکر کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ ایسے نابکار اور مفسدین کو حکومت مل جائے تو فساد اور ہنگامے ہی برپا رکھیں ۔ ﴿فَھَلْ عَسَیْتُمْ اِنْ تَوَلَّیْتُمْ اَنْ تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ وَتُقَطِّعُوْآ اَرْحَامَکُمْ۔ اُوْلٰٓئِکَ الَّذِیْنَ لَعَنَھُمُ اللّٰہُ فَاَصَمَّھُمْ وَاَعْمٰٓی اَبْصَارَھُمْ﴾ (پ ۲۶۔ محمد۔ ع۳) پھر تم سے بھی یہ توقع ہے کہ اگر تم کو حکومت مل جائے تو فساد فی الارض برپا کرو گے اور اپنی قرابتیں (بھی)قطع کرو گے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ نے لعنت کی ہے، پھر ان کو بہرہ اور ان کی آنکھیں اندھی کر دیں ۔ دنیا کی فراوانی بھی ’فساد فی الارض‘ کی موجب ہوتی ہے کیونکہ اپنی بے قابو خواہشات کی تکمیل کے لئے ان کو تمام اَن ہونے کام کرنے پڑ جاتے ہیں ۔ سرمایہ اور مسلمانی رنگ؟ بہت کم جمع ہوتے ہیں