کتاب: محدث شمارہ 42 - صفحہ 4
کے قرآن سے ایک ایسا آئینہ آپ کو مہیا کیا جائے، جس میں ہر وہ شخص اپنا چہرہ دیکھ سکے جو اپنے آپ کو سمجھنے کی ضرورت محسوس کرتا ہے۔ جو لوگ اپنے اختیارات میں اسراف کرتے ہیں اور محض اپنی ’انا اور باطنی طاغوت‘ کی عیاشی کے لئے اختیارات کا لٹھ گھماتے ہیں وہ فسادی ہیں اس لئے حکم ہوتا ہے کہ ان کا کہا نہ مانا کرو۔ ﴿وَلَا تُطِیْعُوْٓا اَمْرَ الْمُسْرِفِیْنَ. اَلَّذِیْنَ یُفْسِدُوْنَ فِیْ الْاَرْضِ وَلَا یُصْلِحُوْنَ﴾۔ (پ۱۹۔ الشعراء۔ ع۷) جو اہلِ فساد، اقتدار و اختیار کے چلو بھر پانی میں گز بھر، ابھر کر چلنے میں مصروف ہیں ، دنیا میں چام کے دام جتنے چلانا چاہیں ، چلا لیں ۔ آخرت میں ان کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔ ﴿تِلْکَ الدَّارُ الْاٰخِرَۃُ نَجْعَلُھَا لِلَّذِیْنَ لَا یُرِیْدُوْنَ عُلُوًّا فِی الْاَرْضِ وَلَا فَسَادًا﴾ (پ ۲۰۔ القصص۔ ع۹) ’’وہ آخرت کا گھر ہم صرف ان لوگوں کو دیں گے جو (خدا کی)زمین میں برتری (کے خبط میں )نہیں پڑے ہوئے اور نہ فساد اور تخریب ان کے پیش نظر ہے۔‘‘ ضروری نہیں کہ صرف آخرت ضائع ہو بلکہ ہو سکتا ہے دنیا میں بھی ان کو جوتے پڑیں ، جیسا کہ فرعون کے ساتھ معاملہ کیا گیا۔ ﴿وَفِرْعَوْنَ ذِي الْأَوْتَادِ () الَّذِينَ طَغَوْا فِي الْبِلَادِ () فَأَكْثَرُوا فِيهَا الْفَسَادَ (12) فَصَبَّ عَلَيْهِمْ رَبُّكَ سَوْطَ عَذَابٍ ﴾ (پ۳۰۔ الفجر۔ ع۱) (کیا آپ نے نہ دیکھا کہ)میخوں والے فرعون کے ساتھ (کیا معاملہ کیا)یہ سب وہ لوگ تھے جنہوں نے ملکوں میں سر اُٹھایا پھر ان میں تخریب کاری کی حد کر دی، تو ان پر آپ کے رب نے عذاب کا کوڑا ڈالا۔ اس کی تفسیر میں علماء لکھتے ہیں کہ: ان قوموں نے عیش و دولت اور زور و قوت کے نشہ میں مست ہو کر ملکوں میں خوب اودھم مچایا، بڑی بڑی شرارتیں کیں اور ایسا سر اُٹھایا، گویا کہ ان کے سروں پر کوئی حاکم ہی نہیں اور ہمیشہ اسی حال میں ہی رہنا ہے، کبھی اس ظلم و شرارت کا خمیازہ بھگتنا نہیں پڑے گا۔ آخر جب ان کے کفر و تکبر اور جو رد ستم کا پیمانہ لبریز ہو گیا اور مہلت و درگزر کا کوئی موقع باقی نہ رہا، دفعۃً خداوند قہار نے ان پر اپنے عذاب کا کوڑا برسا دیا، ان کی سب قوت اور بڑائی خاک میں مل گئی۔ اور وہ ساز و سامان کچھ کام نہ آیا۔ پاکستانیو! سنتے ہو؟