کتاب: محدث شمارہ 42 - صفحہ 38
غسل دیا تھا۔ چوتھے حضرت عاصم بن ثابت جن کی نعش مبارک کی بھڑوں نے حفاظت کی تھی اس پر خزرج قبیلہ والے بولے کہ منا اربعۃ جمعوا القران لم یجمعہ غیرھم یعنی ہم میں چار حافظِ قرآن ہیں ۔ اس کے بعد ان کے نام ذکر کیے۔ ابن جریر بحوالہ اتقان ص ۷۱،ج۱ عین ممکن ہے کہ قبیلہ انصار میں صرف اس وقت چار حافظ ہوں ۔ واللّٰه اعلم بحقیقۃ الحال۔
صحابہ میں کثرتِ حفاظ کے ثبوت کے لئے کئی دلائل پیش کئے جا سکتے ہیں ۔ مثلاً حضور علیہ السلام کی وفات کے بعد حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا جماعت کرانا اس بات پر دلالت کناں ہے کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا جماعت کرانا اس بات پر دلالت کناں ہے کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ حافظ قرآن تھے کیونکہ حضور علیہ السلام کا ارشاد گرامی ہے کہ یؤم القوم اقرأکم لکتاب اللّٰه یعنی جماعت کرانے کے لئے وہی لائق ہے جو کتاب اللہ کا زیادہ قاری ہو اس کے علاوہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مقرر فرمایا تھا۔
نیز جنگِ یمامہ میں ستر کے قریب ایسے صحابہ شہید ہوئے تھے جو تمام کے تمام ’’قراء‘‘ تھے۔
اسی طرح نئر معونہ میں ستّر ایسے صحابہ نے جام شہادت نوش کیا تھا جن کو ’’قراء‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا تھا۔ شہداء یمامہ کی وجہ سے حضرت عمر فاروق نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ پر زور دیا تھا کہ قرآن مقدس کو ایک مقام پر جمع کر دیا جائے مبادا شہداء کی وجہ سے قرآن ضائع ہو جائے معلوم ہوا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں حفاظ کرام کی کثرت تھی۔ ہماری خواہش ہے کہ ان ’’نفوس قدسیہ‘‘ کے مختصر حالات صفحہ قرطاس پر رقم کر دیں جنہوں نے قرآن جیسی عظیم نعمت کو اپنے سینوں میں سمیٹ لیا تھا تاکہ کسی کو یہ جرأت نہ ہو کہ قرآن نعوذ باللہ محرف ہے یا اس سے بعض اجزا عمداً حذف کر دیئے گئے ہیں ۔ وبا اللّٰه التوفیق۔
۱۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ:
نسب: خلیفۃ الرسول ابو بکر صدیق عبد اللہ بن عثمان ابو قحافہ بن عامر بن کعب القرشی التمیمی۔
آپ عام الفیل کے دو سال چھ ماہ بعد مکۃ المکرمہ میں پیدا ہوئے جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت کا اعلان فرمایا تو مردوں میں سب سے پہلے حضرت ابو بکر ہی آپ پر ایمان لائے۔ آپ کو حضور سے حد درجہ محبت تھی اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی آپ سے کوئی کم الفت نہ تھی حتیٰ کہ حضور نے فرمایا لو کنت متخذاً خلیلا لاتخذت ابا بکر خلیلا۔ یعنی اگر دنیا میں کوئی خلیل بنایا جا سکتا تو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے سوا اور کوئی ہستی اس خلت کے لائق نہ ہوتی۔ ’’خلّت‘‘ محبت کے درجات میں ایک ایسا درجہ ہے کہ یہاں پہنچ کر دل ما سوا ’’خلیل‘‘ کے اوروں سے خالی ہو جاتا ہے کیونکہ بعض روایات