کتاب: محدث شمارہ 42 - صفحہ 37
انہی حضرات کا علم ہو۔ ۴۔ ان حضرات نے جن کا تذکرہ حدیث انس میں ہے منسوخ اور غیر منسوخ تمام قرآنی آیات کو لوحِ قلب پر رقم کیا تھا چونکہ لفظاً و معناً منسوخ آیات بھی کسی وقت قرآن کا حصہ تھیں بنا بریں ’’جمعو القرآن‘‘ کی نسبت خصوصیت کے ساتھ ان کی طرف کی گئی جب کہ دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے حکماً و تلاوتاً منسوخ آیات کو ’’ترک متروک‘‘ کر دیا تھا۔ ۵۔ ان سے مراد وہ حضرات ہیں جنہوں نے ’’انزل القرآن علی سبعۃ احرف‘‘ کے مصداق تمام وجوہ قرات کے ساتھ قرآن محفوظ کیا تھا ہو سکتا ہے کہ ان کے علاوہ دیگر صحابہ نے ’’بالاستیعاب سبعۃ احرف‘‘ کو یاد نہ کیا ہو۔ ۶۔ صرف انہوں نے ہی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے براہِ راست بلا واسطہ قرآن یاد کیا تھا عین ممکن ہے کہ باقی حضرات نے آپ کی وفات کے بعد بالواسطہ قرآن یاد کیا ہو اس صورت میں ’’جمعوا القران من فی رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم ‘‘ محذوف ماننا پڑے گا۔ ۷۔ یہ حضرات قرآن یاد کرنے کے بعد تعلیم و تعلّم میں مشغول ہو گئے جس کی وجہ سے ان کا نام مشہور ہو گیا اور باقی صحابہ کے حالات مخفی رہے اور بقاعدہ ’’المشہور المذکور‘‘ کے تحت ان کا ذکر احادیث میں آگیا یا انہوں نے خود اظہار کیا ہو گا کہ ہم حافظِ قرآن ہیں جب کہ دوسروں نے اپنے ’’حفظِ قرآن‘‘ کے متعلق کسی کو خبر نہ دی بنا بریں ان کا تذکرہ نہ ہوا۔ ۸۔ حدیث میں ’’جمعوا‘‘ سے مراد حفظ نہیں بلکہ ’’اطاعت شعاری‘‘ ہے جیسا کہ حضرت ابو الدرداء کے پاس ایک آدمی آیا اور اپنے بیٹے کے متعلق خبر دی کہ اس نے قرآن جمع کر لیا ہے۔ حضرت ابو الدرداء نے اس کے لئے عا کی اور فرمایا کہ انما جمع القرآن من لہ سمع وطاعۃ یعنی جمع قرآن عبارت ہے فرمانبرداری اور اطاعت شعاری سے۔‘‘ لیکن یہ تمام احتمالات میں ہمارے نزدیک یہ ’’وجہ وجیہہ‘‘ ہے جو امام المحدثین حافظ ابنِ حجر رحمہ اللہ نے بیان کی ہے۔ یعنی حضرت انس نے یہ بات اوس اور خزرج کے درمیان مفاخرہ کے وقت کہی تھی جس کی تفصیل یہ ہے۔ حضرت انس فرماتے ہیں کہ اوس اور خزرج کے مابین ایک دفعہ فخر و مباہات کا ذکر ہوا تو قبیلہ اوس کے اشخاص کہنے لگے کہ ہم میں چار عظیم القدر اور جلیل المرتبت ہستیاں ہیں ایک حضرت سعد بن معاذ جن کی موت کے وقت عرش بھی کانپ اُٹھا تھا۔ دوسرے حضرت خزیمہ بن ابی ثابت جن کی گواہی کو دو آدمیوں کے برابر ٹھہرایا گیا تھا۔ یتسرے حنظلہ بن ابی عامر ہیں جن کو فرشتوں نے