کتاب: محدث شمارہ 42 - صفحہ 36
خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے اور دریافت کیا کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں کن کن لوگوں نے قرآن مقدس کو ’’جمع‘‘ کیا تھا؟ اور وہ تمام کے تمام انصار سے متعلق تھے۔ یعنی حضرت ابن بی کعب رضی اللہ عنہ ، حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ ، حضرت زید بن ثابت اور حضرت ابو زید رضوان اللہ علیہم اجمعین۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کے الفاظ یہ ہیں ۔ ’’اربعۃٌ کُلّھم من الانصار ابی بن کعب و معاذ بن جبل و زید بن ثابت وابو زید۔‘‘ یعنی چار کے علاوہ اور کوئی بھی ’’جامع القرآن‘‘ نہ تھا ابو الدرداء، معاذ بن جبل، زید بن ثابت اور ابو زید رضوان اللہ اجمعین۔ اس مقام پر ایک اشکال ہے کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ چار اشخاص کی تعیین ’’کلمہ حصر‘‘ سے کرتے ہیں یعنی صرف یہی چار حافظ تھے؟ یہ بات خلاف عقل و نقل ہے۔ بنا بریں محدثین کرام نے حدیثِ انس کے کئی ایک جواب دیئے ہیں ۔ مثلاً حضرت مارزی فرماتے ہیں کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ کا یہ قول یعنی ’’تعیین بکلمۂ حصر‘‘ قابلِ حجت نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ انہوں نے تو اپنے علم کا اظہار کیا ہے۔ یہ کس طرح ممکن ہے کہ صرف چار صحابہ نے قرآن مجید جمع کیا ہواور باقی حضرات اس نعمتِ عظمیٰ سے محروم رہے ہوں حالانکہ دور دراز سے لوگ قرآنی تعلیم حاصل کرنے کی خاطر حضور علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے۔ اگر حصر تسلیم کر لیں تو یہ بات کہاں تک درست ہو گی کہ قرآن مجید ہمارے پاس تو اتراً پہنچا ہے۔‘‘ ہم بھی الاتقان للسیوطی اور البرہان للزرکشی سے چند توجیہات ہدیۂ قارئین کرتے ہیں ۔ ۱۔ متن میں دو وجہ سے اضطراب ہے۔ (۱)عیین اشخاص۔ حضرت ثابت کی روایت میں حضرت ابو الدرداء کا ذکر ہے جبکہ روایت قتادہ میں ان کی بجائے حضرت ابی بن کعب کا تذکرہ ہے۔ ۲۔ تعداد اشخاص۔ بعض روایات سے پتہ چلتا ہے کہ ’’حافظِ قرآن‘‘ صرف چار تھے حالانکہ دوسری روایات میں کمی بیشی کا ذکر ہے۔ علاوہ ازیں حدیث انس کی بعض روایات میں ’’بیان حصر‘‘ نہیں جیسا کہ قتادہ کی روایت میں ہے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ’’کلمہ حصر‘‘ سہو راوی یا ’’نسخِ کاتب‘‘ ہے۔ ۳۔ یہ مرفع حدیث نہیں بلکہ حضرت انس کا بیان ہے جو انہوں نے اپنے علم کے مطابق کیا ہے۔ اس سے یہ لازم نہیں آتا ہے کہ اور حافظِ قرآن نہیں تھے۔ عین ممکن ہے کہ حضرت انس کو صرف