کتاب: محدث شمارہ 42 - صفحہ 35
یعنی انہوں (یعنی صحابہ کرام)نے قرآن میں ایسی آیتوں کا اضافہ کر دیا جو قابلِ نفرت اور خلافِ فصاحت ہیں ۔
’’اما اعتقاد مشائخنا فی ذلک فی الظاھر من ثقۃ الاسلام من یعقوب الکلینی انہ یعتقد التحریف والنقصان‘‘ تفسیر صافی۔
یعنی تحریفِ قرآن کے بارے میں ہمارے مشائخ کا وہی عقیدہ ہے جو امام کلینی کے کلام سے ظاہر ہے وہ اس قرآن میں تحریف اور کمی ہو جانے کے قائل تھے۔
ان القرآن الذی بین اظھرنا لیس بتمامہ تفسیر صافی۔
’’یعنی اس بات میں جھوٹ کی ذرا بھر بھی ملاوٹ نہیں کہ موجود قرآن پورا نہیں ہے۔‘‘
’’دعویٰ ایں کہ قرآن ہمیں است کہ در مصاحف مشہورہ است خالی از اشکال نیست‘‘ صافی ترجمہ کافی۔
یعنی یہ دعویٰ کہ قرآن اسی قدر ہے جو مصاحف مشہورہ میں موجود ہے ’’محلِ نظر‘‘ ہے۔ طوالت کے پیشِ نظر ہم انہیں حوالجات پر اکتفا کرتے ہیں وگرنہ بقول سعدی مجالِ سخن تنگ نیست، اگر ان تمام ’’افکار پریشاں ‘ کو تسلیم کر لیا جائے تو کائنات کی عمارت ہی دھڑام سے نیچے آگرتی ہے کیونکہ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ کو اتنی قدرت بھی نہ تھی کہ اپنی کتاب کی حفاظت کر سکتا اندریں حالات نظام کائنات کس طرح سنبھال سکتا ہے؟ بھلا وہ شمع کس طرح بجھ سکتی ہے جس کو خدا نے خود فروزاں کیا ہو اور اس کی حفاظت بھی اپنے ذمہ لی ہو۔ قرآنی تحریف کا عقیدہ رکھنا صرف حماقت ہی نہیں بلکہ شقاوت بھی ہے۔ لفظ ’’قرآن‘‘ ہی اس بات کی بین دلیل ہے کہ یہ کتاب بلا کم و کاست ہم تک اس طرح پہنچی ہے جس طرح حضور علیہ السلام پر نازل ہوئی تھی کیونکہ قرآن کہتے ہیں جس کی کثرت سے تلاوت کی جائے۔ دنیا میں اس کے علاوہ اور کوئی ایسی کتاب نہیں جس کی کثرت سے تلاوت کی جاتی ہے۔ بھلا جس کتاب کی اتنی تلاوت کی جاتی ہو کہ ’’قرآن‘‘ اس کا نام بن جائے یعنی اس کا یہ وصف ہی اس کا عَلَم قرار پائے اس میں تحریف کس طرح سے داخل ہو گی۔
مجموعۂ احادیث میں بے شمار ایسے دلائل ملتے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور علیہ السلام کے عہد زریں میں ہی بے شمار صحابۂ کرام نے قرآن مجید کو اپنے سینوں میں محفوظ کر لیا تھا۔ اس مجلس میں ہم چاہتے ہیں کہ ان کا مختصر تعارف پیش کر دیا جائے لیکن اس سے قبل ایک مشہور حدیث جو بعض دفعہ غلط فہمی کا باعث بنتی ہے پیش کر کے ضروری سمجھتے ہیں کہ اس کی توجیہ عرض کر دی جائے۔ چنانچہ بخاری شریف میں ہے کہ ایک مرتبہ حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ حضرت انس رضی اللہ عنہ کی