کتاب: محدث شمارہ 42 - صفحہ 34
﴿وَأَنْزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ الْكِتَابِ وَمُهَيْمِنًا عَلَيْهِ ﴾ ہم نے آپ کی طرف ایسی برحق کتاب اتاری ہے جو سابقہ کتابوں کے لئے تصدیق کنندہ اور ’’مہیمن‘‘ کی حیثیت رکھتی ہے۔ عربی زبان میں ’’مہیمن‘‘ کا لفظ محافظ و نگران اور امین و شاہد کے معنوں میں مستعمل ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کریم نہ صرف خود ہی انسانی دخل اندازی سے محفوظ ہے بلکہ سابقہ ضروری تعلیمات بھی اس نے اپنے اندر محفوظ کر لی ہیں اور نگران کی حیثیت سے اس بات کی نشاندہی بھی کی ہے کہ ان ’احبار و رہبان‘‘ نے کہاں فکر و عمل کے مسائل میں تحریف سے کام لیا۔ بھلا جو کتاب خود تحریف و تبدیل سے محفوظ نہ ہو وہ دوسری کتابوں کی تعلیمات کی حفاظت کا دعویٰ کیونکر کر سکتی ہے؟ قرآن کریم کی اس عظمت و حفاظت کا اعتراف غیروں کو بھی ہے چنانچہ ’’سرولیم میور‘‘ اپنی تصنیف ’’لائف آف محمد‘‘ میں لکھتا ہے۔ ’’دنیا میں آسمان کے نیچے قرآن کے علاوہ اور کوئی مذہبی کتاب ایسی نہیں جس کا متن ابتدا سے لے کے اس وقت تک تحریف سے پاک ہو۔‘‘ اس کے علاوہ ’’دان کریم‘‘ نامی ایک مشہور جرمن مستشرق کہتا ہے۔ ’’ہم قرآن کو بالکل اسی طرح محمد کے منہ سے نکلے ہوئے الفاظ کا مجموعہ یقین کرتے ہیں جس طرح مسلمان اسے خدا کا کلام یعنی اس کے غیر محرف ہونے کا یقین کامل ہے۔‘‘ قرآنی حفاظت کے ان دلائل و اعترافات کے باوجود ہمارے معاشرے کا ایک گروہ اس بات پر تلا ہوا ہے کہ موجودہ قرآن وہ قرآن نہیں جو محسنِ انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا تھا بلکہ اس میں بہت کانٹ چھانٹ اور تبدیلی کی گئی ہے اور بیشتر وہ حصہ جس میں اہل بیت کے مناقب اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ’’خلیفہ بلا فضل‘‘ ہونے کا ذکر تھا اس کو دانستہ حذف کر دیا گیا ہے۔ قرآن کے متعلق ایسے پروپیگنڈے ان کی معتمد کتابوں میں موجود ہیں بلکہ اور انہوں نے اپنی کتابوں میں ’’قرآن میں کمی و بیشی کے متعلق‘‘ باب باندھے ہیں ۔ ملاحظہ فرمائیں : ’’باب فیہ نکت ونتف من التنزیل فی الولایۃ‘‘ اصول کافی ص ۲۶۱ یعنی یہ باب اس بیان میں ہے کہ (حضرت علی کی)امامت کی آیات قرآن سے نکال دی گئی ہیں ۔‘‘ اس کے بعد متعدد روایات سے ثابت کیا گیا ہے کہ فلاں فلاں آیات قرآن سے خارج کر دی گئیں ۔ وزادوا فیہ ما ظھر تناکرہ وتنافرہ احتجاج (ص ۱۳۵)