کتاب: محدث شمارہ 42 - صفحہ 32
جانبین کی رضا مندی ضروری ہے۔﴿ لَا تَاکُلُوْٓا اَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ اِلَّآ اَنْ تَکُوْنَ تِجَارَۃً عَنْ تَرَاضٍ مِّنْکُمْ ﴾ (پ۵۔ النساء۔ ع۵)
جبر ’تراضی‘ کی روح کے خلاف ہے۔
دوسرا یہ کہ نرخ مقرر کرنے پر اشیاء میں ملاوٹ شروع ہو جاتی ہے۔ تیسرا یہ کہ مارکیٹ میں اشیاء غائب ہوجاتی ہیں ۔ چوتھا یہ کہ: کنٹرول ریٹ مزید گرانی کا سبب بن جاتا ہے کیونکہ چوری چھپے منہ مانگے دام وصول کرتے ہیں ، پانچواں یہ کہ ہو سکتا ہے کہ فی الواقع بائع کو نقصان برداشت کرنا پڑ رہا ہو، اور یہ بجائے خود ظلم ہے۔ بعض حالات میں بعض ائمہ نے اس کی اجازت دی ہے مگر یہ بات حدیث کے خلاف ہے۔
۲۔ خدا کی شکل پر انسان:
یہ دراصل حدیث ان اللہ خلق اٰدم علی صورتہ (مسلم)کا مضمون ہے ہم نے اپنی تفسیر ’’التفسیر والتعبیر‘‘ (بقرہ ع۴)میں تفصیل سے روشنی ڈالی ہے، وہاں ملاحظہ فرما لیں ۔
صورتہ، اصل میں اضافت تشریفی ہے، جیسے بیت اللہ، ناقۃ اللہ۔ اس سے کسی کی تکریم مقصود ہوتی ہے، بہرحال ظاہری معنی مراد نہیں ہیں ۔ اس کے علاوہ: صورت کے معنی صفت کے بھی ہوتے ہیں ، اس کے معنی صرف ہاتھ پاؤں اور منہ یا ناک نہیں ہوتے، چونکہ بہت سی باتوں میں بظاہر صفاتِ الٰہیہ کا حامل ہوتا ہے، جیسے آنکھ، کان، ہاتھ وغیرہ، اس لئے کہا گیا ہے کہ ’’بصورت حق‘‘ پیدا کیا گیا ہے۔ گو ان صفات میں اشتراک رسمی ہے، حقیقت میں مماثلت نہیں ہے تاہم شرف و مزیت کے لئے اتنی سی بات بھی انسان کا مرتبہ دوبالا کر گئی ہے۔
۳۔ بازار سے لا کر دوں گا:
حدیث میں یہ بھی ممنوع ہے۔ قال حکیم بن حزام: قلت یا رسول اللّٰه ! یاتینی الرجل فیسئالنی عن البیع لیس عندی ما ابیعہ ثم ابتاعہ من السوق۔ فقال لا تبع ما لیس عندک (ابو داؤد و ترمذی وصححہ)یعنی میں نے عرض کی: حضور! میرے پاس ایک صاحب ایسی چیز کا گاہک آتا ہے جو میرے پاس نہیں ہے، پھر اسے بازار سے خرید کر دیتا ہوں (کیا جائز ہے؟)فرمایا جو شے آپ کے پاس نہیں اس کا سودا نہ کیجئے! اس کے جو مفاسد ہیں وہ بالکل ظاہر ہیں مگر آج کل یہ کاروبار بھی عام۔ بلکہ زبانی کلامی سود اور سودا گھر بیٹھے ہو رہا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ بعض حضرات اس کے لئے بھی کوئی وجہ جواز ڈھونڈ لائیں ۔ لیکن یہ تکلف ہو گا اور غلط کاروں کو سہارے مہیا کرنے والی بات۔ ہاں بیع سلم اس سے مستثنیٰ ہے۔ واللہ اعلم۔