کتاب: محدث شمارہ 42 - صفحہ 31
ہابیل اور قابیل: کا جو قصہ مشہور ہے، اس میں قرآن حکیم نے قابیل کے حسد اور ہابیل کی اسلام پسندی کی تفصیل پیش کی ہے، باقی رہا یہ معاملہ کہ اس میں حسین لڑکی سے قابیل کی دلچسپی کا ذکر ہے تو احادیثِ مرفوعہ میں اس کا کچھ ثبوت نہیں ملتا۔ بعض صحابہ سے ایسی روایات مروی ہیں جو ہو سکتا ہے کہ وہ اسرائیلیات سے ماخوذ ہوں ، کیونکہ اس کا ان کے ہاں رواج تھا۔ اس کے علاوہ اس کے برعکس بھی ان میں کچھ اور امور کا ذکر ملتا ہے۔ ابن کثیر کا رجحان بھی اسی طرح ہے کہ لڑکی کے نکاح والا واقعہ تسلی بخش نہیں ہے۔ ہو بھی تو اسے معاشقہ سے تعبیر نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ معاشقہ جانبین کے جنون کا نام ہے جس کا بہرحال لڑکی کے سلسلے میں کوئی ذکر نہیں ملتا۔ قابیل کے سلسلے میں بھی یہی کہہ سکتے ہیں کہ اسے اس سے دلچسپی تھی اور بس۔ ہمارا رجحان اس طرف ہے، کہ یہاں لڑکی کے نکاح کی بات نہیں تھی، بلکہ ہابیل کی نیک شہرت اس کے لئے فتنہ بنی، وہ سمجھا کہ، خدا بھی اس کی قربانی قبول کرتا ہے اور لوگ بھی سارے اسے ہی اچھا کہتے ہیں تو اس کا قصہ ہی کیوں نہ پاک کر دیا جائے۔ بانس رہے نہ بانسری۔ واللہ اعلم۔
استفتاء نمبر ۳
نرخ مقرر کرنا۔ خلق آدم علی صورتہ۔ اس امید پر بیع کرنا کہ بازار سے لا کر دوں گا۔
ایک تازہ استفتاء آیا ہے کہ:
۱۔ حکومت جو نرخ مقرر کرتی ہے، کیا وہ شرعاً جائز ہے؟
۲۔ سنا ہے، حدیث میں ہے کہ اللہ نے انسان کو اپنی شکل پر پیدا کیا ہے۔ اس کا کیا مطلب ہے؟
۳۔ اس امید پر بیع (سودا)کرنا کہ بازار سے لا کر دوں گا، کیسا ہے؟ (ملخصاً)
الجواب واللّٰه اعلم بالصواب۔
نرخ: یہ جائز نہیں ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مبارک عہد میں گرانی ہوئی تو صحابہ نے کہا کہ کاش آپ کنٹرول ریٹ مقرر کر دیتے۔ آپ نے فرمایا کہ یہ اللہ کا کام،وہی ’’مسعّر‘‘ ہے۔ کہیں خدا قیامت میں مجھ سے باز پرس نہ کریں ۔
غلا السعر علی عھد رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم فقالوا یا رسول اللّٰه : لو سَعَّرْتَ فقال ان اللّٰه ھو القابض الباسط الرزاق المُسَعِّرُو انی لا رجوان القی اللّٰه عزوجل ولا یطلبنی احد بمظلمۃ ظلمتھا ایاہ فی دم او مال (ترمذی وغیرہ عن انس وصححہ الترمذی)
حضور کا اس سے گھبرانا بلا وجہ نہیں تھا، ایک تو حق تعالیٰ کے اس ارشاد کے خلاف ہے کہ