کتاب: محدث شمارہ 42 - صفحہ 30
دین کا منکر ہو اس کی تکفیر میں کوئی اختلاف نہیں ۔ معنی ھذہ القاعدۃ انہ لا یکفر فی المسائل الاجتھادیۃ، اذ لا نزاع فی تکفیر من انکر شیئاً من ضروریات الدین (حاشیہ خیالی ص ۱۴۹) استفتاء نمبر ۲ الجواب واللّٰه اعلم بالصواب۔ ۱۔ ہیر رانجھا: ان مسائل کا تعلق دراصل تاریخ سے ہے اس لئے مناسب تھا کہ اس کے لئے کسی مؤرخ کی طرف رجوع کیا جاتا، ہم نے بھی اگر کبھی کبھار اس سانحہ کا مطالعہ کیا بھی ہے تو ایک تاریخی واقعہ کے طور پر کیا۔ بطور قصے کے نہیں ۔ سب سے پہلے اِسے نواب احمدیار خاں نے شاہجہان کے عہد میں فارسی میں منظوم کیا، جس کا نام ’مثنوی یکتا تھا‘ پھر صوبھے خاں اور میرن شاہ نے اس قصہ کو ملتانی زبان میں پیش کیا لیکن پنجابی میں وارث شاہ نے جو ہیر پیش کی، وہ سب سے زیادہ مقبول رہی مگر واقعہ غلط ہے۔ ضلع جھنگ میں ہیر کا خاندان موجود ہے، حکومت کے ریکارڈ میں ان کا شجرۂ نسب ملتا ہے۔ اور مراضعات کے واجب العرض میں بھی ہیر کا واقعہ درج ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آج سے تقریباً ساڑھے پانچ سو برس پہلے جھنگ میں سیال قوم برسراقتدار تھی۔ چوچک نامی رئیس کے گھر ایک بچی پیدا ہوئی جس کو ہیر کہتے ہیں ، وہ جوانی میں ہی علوم مروجہ سے فارغ ہو چکی تھی اور اس قوم میں یہ سب سے پہلی خاتون ہے جو مسلمان ہوئی تھی، یہ بڑی زاہدہ خاتون تھی، چنانچہ سیال کا پورا خاندان بھی اس کی تبلیغ سے ہی مسلمان ہوا، نواب بہلول کو اس سے بڑی عقیدت تھی۔ رانجھا ایک قوم کا نام ہے اور اسی نام پر ایک شخص کا بھی نام پڑ گیا، وہ ہیر کے عقیدت مندوں میں سے تھا اور صالح انسان تھا، بہرحال تاریخ کے اوراق سے پتہ چلتا ہے کہ ہیر رانجھا کا جو قصہ مشہور ہے، وہ دراصل وارث شاہ کی اپنی آپ بیتی ہے، وہ بھاگ بھری پر عاشق تھا، لیکن اس نے یہ زیادتی کی کہ ناحق اپنی بات ہیر اور رانجھا کے روپ میں پیش کر ڈالی۔ حالانکہ جھنگ میں قوم سیال کی تاریخ اور ہیر کے علم و اسلام کی داستان درج ہے۔ مگر لوگ اسے دیکھتے نہیں ہیر وارث شاہ کو پڑھ کر ان کو ناحق متہم کرتے ہیں ۔ میں نے بہرحال اس پر کوئی زیادہ ریسرچ نہیں کی، یہ ایک آدھ مقالہ کا حاصل ہے جو ۱۹۴۷ء میں کہیں پڑھا تھا۔ اس دن سے ان کے بارے میں ذہن کچھ صاف سا ہے۔ بہرحال بدگمانی سے یہ حسنِ ظن بہتر تصور کرتا ہوں ۔ واللہ اعلم۔