کتاب: محدث شمارہ 42 - صفحہ 3
کتاب: محدث شمارہ 42 مصنف: ڈاکٹر عبد الرحمٰن مدنی پبلیشر: مجلس التحقیق الاسلامی ،لاہور ترجمہ: فکر و نظر فساد فی الارض۔ تخریب کاری (قرآن کے آئینہ میں ) فساد فی الارض ’’نوع انسانی‘‘ کی سب سے بڑی بد نصیبی بلکہ کائنات کی ہر چیز کی سیاہ بختی کی بات ہے، کیونکہ تخریب اور تخریب کاری انسان کی سیاہ کاری کا نتیجہ ہوتی ہے اور بطور سزا اور قہرِ الٰہی کے پھلتی پھولتی اور پھیلتی ہے۔ ﴿ظَھَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ اَیْدِی النَّاسِ لِیُذِیْقَھُمْ بَعْضَ الَّذِیْ عَمِلُوْا﴾ (پارہ۲۱۔ الروم۔ ع۵) گو خدا کی زمین میں یہ بگاڑ اور خرابی ایک سزا اور قہرِ الٰہی ہے، لیکن اس سے غرض بندوں کی مکمل تباہی نہیں ہے بلکہ غرض یہ ہے کہ مزہ چکھ کر شاید لوٹ آئیں اور سیدھی راہ پر پڑ جائیں ۔ ﴿لَعَلَّھُمْ یَرْجِعُوْنَ﴾ (پ۲۱۔ الروم۔ ع۵) تخریب کاری اور فساد فی الارض ایک ایسا الزام ہے جسے کوئی بھی شخص قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہے، جو واقعۃً مفسد لوگ ہیں ، وہ بھی اپنا الزام دوسرے کے سر دھرتے ہیں ، خود اپنی کوتاہی کا اعتراف نہیں کرتے، بلکہ وہ اپنے آپ کو ریفارمر اور مصلح بھی کہتے ہیں ۔ ﴿وَاِذَا قِیْلَ لَھُمْ لَا تُفْسِدُوْا فِیْ الْاَرْضِ قَالُوْا اِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُوْنَ ﴾(پ۱۔ البقرہ۔ ع۲) بلکہ ملک و ملت میں جو لوگ صحیح معنی میں مصلحین اور صالحین ہوتے ہیں ، الٹا ان کو بدنام کرنے میں مصروف رہتے ہیں تاکہ دنیا کی توجہ ان اہلِ فساد کی طرف سے ہٹ جائے۔ ﴿وَقَالَ الْمَلأُ مِنْ قَوْمِ فِرْعَوْنَ اَتَذَرُ مُوْسٰی وَقَوْمَہ، لِیُفْسِدُوْا فِیْ الْاَرْضِ وَیَذَرَکَ وَاٰلِھَتَکَ ﴾(الاعراف۔ ع۱۵) یہ ’’الملأ‘‘ قوم کا اونچا طبقہ تھا، جو فرعون کی خصوصی کابینہ سے تعلق رکھتا تھا یعنی بائیں بازو کے لوگ تھے اور تہمتِ فساد اللہ کے نبی پر لگا رہے تھے جیسا کہ آج کل ہو رہا ہے۔ اُف ہم چاہتے ہیں کہ کسی پر اپنی طرف سے فساد اور تخریب کاری کا الزام عائد کرنے کے بجائے، خدا