کتاب: محدث شمارہ 42 - صفحہ 29
مراد ہوتا ہے۔
وکذلک لفظ الذنوب اذا اطلق دخل فیہ ترک کل واجب وفعل کل حرام (اقتضاء الصراط المستقیم)
میر سید شریف جرجانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں یہ ہر وہ فعل ہے جو خدا سے روکے:
ما یحجبک عن اللّٰه (التعریفات ص ۷۳)
اَللّمَم۔ گناہ کا ارادہ کرنا مگر مرتکب نہ ہونا۔ لَمَم ہے۔ (مفردات)
عریاں بے حیائی سے کم درجہ کے صغیرہ گناہ: اللمم ما دون الفاحشۃ من صغار الذنوب (المغرب ص ۱۷۲)
اس کے یہ معنی بھی ہیں کہ گناہ کے بعد یوں پچھتانا کہ پھر اسے نہ کرنا۔
بمعنی انہ لم یلم بہ مرۃ او مرتین فیتوب عن قریب فلا یجعلھا عادۃ (کمالین ص ۴۳۷)
قال ابن عباس ھو الرجل یلم بالفاحشۃ ثم یتوب۔۔۔۔ وقال ابو ھریرۃ اللمۃ من الزنا ثم یتوب ولا یعود الخ (ابن کثیر ص ۲۵۶/۴)ای ما یاتی بہ المومن ویندم فی الحال وھو من اللمم (کبیر)
اثم۔ وہ فعل جو کارِ ثواب سے پیچھے رکھے (مفردات)جس سے شرعاً اور طبعاً پرہیز کرنا ضروری ہو۔
ما یجب التحرز منہ شرعا وطبعا (التعریفات ص ۴)
اور جب مطلق مستعمل ہو تو اس وقت ہر گناہ کو اثم کہتے ہیں ۔ کذلک لفظ الاثم اذا اطلق دخل فیہ کل ذنب (اقتضاء الصراط المستقیم ابن تیمیہ (ص۶۶)
تکفیر اہلِ قبلہ: مزرائی کا استدلال غلط ہے، حدیث میں ’مسلمانی‘ کی کچھ ظاہری علامات کا ذکر کیا گیا ہے کہ: اب سمجھ لو کہ ضروریاتِ دین کا وہ قائل ہو گا، اگر داخلی یا خارجی دلائل سے واضح ہو جائے کہ وہ شخص ضروریات دین کا منکر ہے تو وہ لاکھ نمازیں پڑھے، یہاں نہیں کعبہ میں جا کر پڑھے صرف ہمارا ذبیحہ نہیں ہمارا پکا بھی کھائے تو وہ پھر بھی کافر ہی رہے گا۔ کیونکہ وہاں روح غائب ہے۔
عقائد کی جن کتابوں میں اِس موضوع سے بحث کی گئی ہے اس میں یہ تصریح کی گئی ہے کہ بنیاد اس کی پختہ ہو۔ پھر ان کی تکفیر مناسب نہیں ۔ شرح مقاصد میں ہے۔
وھم الذین اعتقدوا بقلبھم دین الاسلام اعتقادا جازماً خالیا عن الشکوک ونطلقوا بالشھادتین فان من اقتصر علی احدھما لم یکن من اھل القبلۃ (شرح مقاصد)
شرح عقائد کی شرح خیالی میں ہے کہ اس سے مراد اجتہادی مسائل میں عدم تکفیر ہے لیکن جو ضروریاتِ