کتاب: محدث شمارہ 42 - صفحہ 28
استعمال کی ہیں جن کا مفہوم الگ الگ ہے۔ گو بعض ایک دوسرے کے مقام پر بھی استعمال ہو سکتیں ہیں ، یعنی بعض پہلوؤں میں ۔
سیئہ: برائی کو کہتے ہیں ، یہ دو قسم کی ہے ایک وہ جو شرعاً و عقلاً بری تصور کی جاتی ہے دوسری وہ جس سے طبیعت پر انقباض طاری ہوتا ہے اور وہ شاق اور گراں گزرتی ہے۔
عصیان: ترکِ اطاعت کو عصیان اور نافرمانی کہتے ہیں ۔ ھو ترک الانقیاد (کتاب التعریفات للسید)
خطاء، خطیئہ: سے مراد وہ فعل ہے جو مطلوب نہیں ہوتا بلکہ کسی اور وجہ سے سر زد ہو جاتا ہے، یہ سبب دو قسم کا ہوتا ہے، ایک مخطور جیسے نشہ آور شے پی کر کوئی ارتکاب کرنا۔ یہ صورت قابل گرفت ہوتی ہے، دوسرا مباح جیسے شکار کے قصد سے گولی چھوڑی مگر کسی اور کو جا لگی، اس میں گرفت نہیں ہے۔ علامہ اصفہانی فرماتے ہیں کہ اس کی متعدد قسمیں ہیں ۔
ایک یہ کہ ایسے کام کا ارادہ کرے جس کا قصد مناسب بھی نہ تھا۔ یہ خطا تام ہے۔ یہ قابلِ مواخذہ ہے۔
دوم یہ کہ قصد کچھ اور ہو مگر ہو دوسرا جائے۔ یہ باب افعال سے آتا ہے یہ قابلِ مواخذہ نہیں ہوتا ہے۔
تیسرا یہ کہ غیر مستحسن کام کا قصد کرے مگر فعل مستحسن سر زد ہو جائے یہ باعث ستائش نہیں ہو گا (مفردات راغب)
میر سید شریف جرجانی فرماتے ہیں یہ وہ فعل ہے جو قصد کے بغیر ہو، یہ حق اللہ کے سقوط کی صلاحیت رکھتا ہے بشرطیکہ اجتہاداً ایسا ہو اور عقوبت شرعی میں شبہ کا باعث بن جاتا ہے۔
اس لئے ایسا انسان مجرم نہیں ہوتا اور نہ ہی حد اور قصاص اس پر جاری ہوتا ہے لیکن یہ عذر حق العباد کے سقوط کا موجب نہیں ہوتا اس لئے ضمان وغیرہ لازم ہو جاتی ہے۔
ھو ما لیس للانسان فیہ قصد وھو عذر صالح لسقوط حق اللّٰه تعالیٰ اذا فصل عن اجتھاد ویصیر شبھۃ فی العقوبۃ حتّیی لا یوثم الخاطی ولاحد ولا قصاص۔ ولم یجعل عذرا فی حق العباد حتی وجب علیہ ضمان العدوان (التعریفات ص ۶۸)
ہمارے نزدیک یہ تعریف بہت جامع ہے۔
ذنوب: ذنب ہر اس فعل کو کہتے ہیں ، جس کا انجام برا ہو۔ (مفردات)
عیوب کے معنی میں بھی استعمال ہوا ہے (فی اللغۃ الذنوب، العیوب۔ العرف الشذی)
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں جب یہ مطلق بولا جائے تو اس سے ہر واجب کا ترک اور ہر حرام کا ارتکاب