کتاب: محدث شمارہ 42 - صفحہ 24
یہاں ہوا۔ قربِ خدا، محبوب کا جوار اور بے وساطت تعلق کی پینگیں ، ملائکہ کی اصلی کائنات ہے، اس کو قائم رکھنے کے لئے اگر انہوں نے کوئی پیرائیہ بیان کیا تو برا نہیں کیا بلکہ عبادت پر اصرار کیا ہے جو بجائے خود قابلِ رشک ہے۔ اس لئے خدا نے فرشتوں کی اس پوشیدہ تمنا کی تردید نہیں کی اور نہ ابنِ آدم کے سلسلے کی کمزوریوں کی نشاندہی پر نکیر فرمائی، بلکہ گرفت اس بات پر فرمائی کہ وہ اصل بات نہیں سمجھے! ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے، انسان کے سلسلے کی معلومات سے فرشتوں کی بے خبری کا ذِکر فرمایا، اس کے بعد ’’انسانِ مطلوب‘‘ تخلیق کر کے فرشتوں کے پیش کیا، یعنی ظاہری اور معنوی طاقتوں ، بالخصوص علمی صلاحیتوں اور اجتہادی ملکہ سے اِسے آراستہ فرما کر فرشتوں کے سامنے ’علم الاشیاء‘ کا باب کھولا، جس میں ’انسان مطلوب‘ (آدم)اپنے فطری روپ میں نمودار ہو کر ان پر بھاری رہا، مگر فرشتے، اپنے دائرہِ ملکوتیت کی وجہ سے انسانی خصائص، تقاضوں اور میدان میں اجنبی رہے اور یہ بالکل ایک قدرتی بات تھی، کیونکہ نوعی میدان سب کا جدا جدا ہے، اس لئے اتمامِ حجت کے بعد حق تعالیٰ نے ایک اصولی بات ان پر واضح فرما دی کہ علمِ غیب خدائی خاصہ ہے، جس طرح تم خود ایک دوسرے کے نوعی خصائص کے میدان میں اجنبی ہو اسی طرح جو امور مجھ سے متعلق ہیں ، وہ میں ہی جانتا ہوں ۔ تم نہیں جانتے، دیکھیے تمہارے دِل میں جو تمنا چٹکیاں لے رہی تھی، وہ مجھ پر عیاں تھی لیکن تخلیق آدم میں جو حکمت مجھے ملخوط تھی، تم تآخر اس سے بے خبر ہی رہے۔