کتاب: محدث شمارہ 42 - صفحہ 23
اِنِّیْ اَعْلَمُ غَیْبَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاَعْلَمُ مَا تُبْدُوْنَ وَمَا کُنْتُمْ۵؎ تَکْتُمُوْنَ (خدا نے فرشتوں کی طرف مخاطب ہو کر)فرمایا، ہم نے تم سے نہیں کہا تھا کہ آسمانوں او زمین کی سب مخفی چیزیں ہم کو معلوم ہیں اور جو کچھ تم ظاہر کرتے ہو اور جو تم ہم سے چھپاتے ہو (وہ)سب ہم کو معلوم ہیں ۔ ___________________________________ محدود دائرۂ کار کا اعتراف کیا۔ اشیاء کو سامنے لا کر پیش کیا اور ان کے سلسلے کی معلومات کی بابت ان سے پوچھا۔ چنانچہ حضرت آدم اس امتحان میں کامیاب رہے اور فرشتوں نے معذرت کر دی۔ اس سے معلوم ہوا کہ علم سے بالکلیہ بے بہرہ انسان، خدا کا وہ مطلوب انسان نہیں ہے جس کا فرشتوں سے ذِکر کیا گیا تھا۔ یہ باب اور میدان دراصل ’مسلم‘ کا تھا، مگر افسوس وہی اب تہی دامن ہے۔ فرشتوں نے اشیاء کے سلسلے کی معلومات سے اپنی لا علمی ظاہر کی تھی کیونکہ یہ بہرحال اجتہادی چیز نہیں تھی، سرتاپا الہامی اور توقیفی ہے۔ اجتہاد وہاں ہوتا ہے، جہاں اس کی زمین پہلے سامنے ہوتی ہے۔ آدم کو تعلیم نہ دی جاتی تو اجتہاد کرنے سے وہ بھی قاصر رہتے، چونکہ اپنے دائرۂ کار میں فرشتے کامل معلومات رکھتے ہیں اور اسی حد تک اجتہاد کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے نوعِ انسان کی تخریب پسندی کی پیش گوئی یا انکشاف کیا تھا۔ علم الاشیاء کے باوجود باقی رہی غلط نتیجے کی بات؟ سو وہ ہو جاتی ہے۔ جب اجتہاد کی نوبت آئی تو بالآخر آدم سے بھی چوک ہو گئی تھی۔ گو گناہ نہیں چوک تو ہے ہی، ۴؎ یہاں حق تعالیٰ نے فرمایا کہ: غیب تو میرے پاس ہے یہ آپ کے بس کی بات نہیں ، کیونکہ یہ اجتہادی بات ہی نہیں تھی، اس لئے اصل موضوع سے واقفیت سے پہلے اظہار رائے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ ۵؎ وہ چھپی بات ؎ بعد از بزرگ توئی، پر فائز رہنے کی تمنا تھی، ہر شخص اپنی عزیز سے عزیز تر متاع کی قربانی یوں دے سکتا ہے کہ اس کے دل پر بوجھ بھی نہ آئے لیکن ’’محبوب‘‘ کی بات کچھ اور ہے۔ یہاں ایثار مشکل ہوتا ہے اگر ہوتا ہے تو وہ بھی ’محبوب‘ کی تمنا پر۔ جیسا کہ