کتاب: محدث شمارہ 42 - صفحہ 22
الْاَسْمَآءَ کُ۳؎لَّھَا ثُمَّ عَرَضَھُمْ عَلَی الْمَلٰٓئِکَۃِ فَقَالَ اَنْبِؤُنِیْ بِاَسْمَآءِ ھٰٓؤُلَآءِ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ۔ قَالُوْا سُبْحٰنَکَ لَا عِلْمَ لَنَا اِلَّا مَا عَلَّمْتَنَا اِنَّکَ اَنْتَ الْعَلِیْمُ الْحَکِیْمُ۔ قَالَ یٰٓاٰدَمُ اَنْبِئْھُمْ بِاَسْمَآءِھِمْج فَلَمَّآ اَنْبَائَھُمْ بَاَسْمَآئِھِمْ قَالَ۴؎ اَلَمْ اَقُلْ لَّکُمْ
(چیزوں کے)نام بتا دیئے پھر ان چیزوں کو فرشتے کے روبرو پیش کر کے فرمایا کہ اگر تم (اپنے دعوے میں )سچے ہو تو ہم کو ان چیزوں کے نام بتاؤ۔ بولے تو پاک (ذات)ہے جو تم نے ہم کو بتا دیا ہے اس کے سوا ہم کو کچھ معلوم نہیں ، تحقیق تو ہی جاننے والا مصلحت کا پہچاننے والا ہے (تب خدا نے آدم کو)حکم دیا کہ اے آدم تم فرشتوں کو ان چیزوں کے نام بتا دو۔ پھر جب آدم نے فرشتوں کو ان کے نام بتا دیئے تو
_______________________________________
عورتیں یہ خیانتیں ، عام سمجھ کر کچھ کر گزرتی ہیں ، بعض اوقات حجابًا نہیں پوچھتیں اور کر گزرتی ہیں ، بعض اوقات مصلحتاً چھپا کر کرتی ہیں ، الغرض عورت کی یہ ایک فطری کمزوری ہے جس کو حوّا (پہلی خاتون)کی مثال کے ذریعے پیش کیا گیا ہے۔ باقی رہی وہ خیانت کیا تھی؟ کچھ پتہ نہیں ۔ نہ تفصیل میں پڑنے کی ضرورت ہے، جو روایت ملتی ہیں ، غالیا اسرائیلیات ہیں ۔ واللہ اعلم
حضور نے شب معراج حضرت آدم کو دیکھا کہ داہنے طرف دیکھتے ہیں تو خوش ہو جاتے ہیں بائیں جانب دیکھتے ہیں تو غم کھاتے ہیں ۔ یعنی نیک و بد اولاد کو دیکھ کر (بخاری)
قیامت کے دن اللہ تعالیٰ حضرت آدم کو آواز دیں گے، جواب میں کہیں گے لبیک وسعدیک والخیر فی یدیک، پھر رب تعالیٰ فرمائیں گے ہزار میں سے ۹۹۹ دوزخ کے لئے نکالیے!
یاٰدم فیقول لبیک وسعدیک والخیر فی یدیک۔ فیقول اخرج بعث النار قال وما بعث النار قال من کل الف تسع مائۃ وتسعۃ وتسعین (بخاری۔ کتاب الانبیاء)
۳؎ الاسماء (نام)ان سے مراد علم الاشیاء ہے، علم الاشیاء انسانی فطرت کا خاصہ ہے، اور یہ وہ انسان تھا، جس کا خدا نے فرشتوں سے ذکر کیا تھا۔ ایسا نہیں کہ فرشتوں کو مات دینے کے لئے آدم کو تعلیم دی اور پھر فرشتوں کو شکست دلائی۔ بلکہ فرشتوں کے اظہار رائے کے بعد ’مطلوب انسان‘ بنا کر ان کے سامنے پیش کیا۔ جس کی قدرتی اور فطری صلاحیت کو دیکھ کر انہوں نے اپنے