کتاب: محدث شمارہ 42 - صفحہ 21
یا خدا کے حضور میں دائمی قرب و وصال کے لالچ میں اجتہاداً ہوا۔ اس لئے یہ معصیت تھی ہی نہیں ، بھول چوک کی بات تھی۔ باقی رہا بہشت سے ان کا نکلنا؟ سو وہ معصیت کا نتیجہ نہیں تھا۔ کیونکہ اصلی پروگرام جس کے لئے تخلیق ہوئی تھی وہ زمین کی سکونت تھی (اِنِّیْ جَاعِلٌ فِیْ الْاَرْضِ خَلِیْفِۃ)بہشت میں جتنے دن رہے، بطور مہمان کے رہے۔ اُسْکُنْ اَنْتَ وَزَوْجُکَ سکون حرکت کے بعد یا حرکت سے پہلے کے ثانیہ کا نام ہے، ظاہر ہے کہیں سے آئے نہیں تھے، وہاں ہی ان کی تخلیق ہوئی تھی، اس لئے یہ سکون آنے والی حرکت کے اعتبار سے تھا۔ گویا کہ یہ قیام عارضی تھا۔ شیطان کا ان کو پھسلانا کہ اصل میں تمہیں یہاں سے چلتا کرنا ہے، اس لئے یہ شجرہ چکھ لو گے تو پھر یہاں سے کوچ کی نوبت ہی نہیں آئے گی، تو معلوم ہوا کہ وہاں آدم کو اپنے عارضی قیام کا علم تھا تبھی تو انہوں نے دائمی اقامت کے لئے جتن کیے۔
قیامت میں حضرت آدم اپنی اس غلطی کے احساس سے شفاعت کرنے سے گریز کریں گے۔ (بخاری کتاب الانبیاء۔ باب، قول اللّٰه اِنَّا اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰی قَوْمِہ تو یہ اس لئے نہیں کہ وہ بھی اِسے گناہ تصور کرتے ہیں بلکہ آنا نکہ عارف تراند ترساں تراند والی بات ہے، دیکھیے! ٹھوکر کھا کر گرنا سب سے بڑی معذرت ہے کوئی عیب کی بات نہیں ، لیکن بچہ گر جائے تو اس کی پروا نہیں ہوتی اگر بڑا گر پڑے تو چہرے کی ہوائیاں اُڑ جاتی ہیں ۔ بہرحال وہ رب سے شرمائیں گے کہ مجھ سے لغزش ہو گئی۔
حضرت آدم علیہ السلام، اللہ کے رسول اور نبی تھے اور سب سے پہلے نبی و رسول!
ابو ذر: قلت یا رسول اللّٰه من کان اولھم قال اٰدم قلت یا رسول اللّٰه ! بنی مرسل؟ قال نعم (البدایۃ والنھایۃ ص ۹۷ بحوالہ ابن حبان)
حضرت نوح اور حضرت آدم کے مابین دس قرن کا وقفہ ہے۔
فکم کان بنیہ وبین نوحٍ قال عشرۃ قرون (البدایۃ والنھایۃ ص ۱۰۲/ج۱ بحوالہ ابن حبان)
عورت، مرد کی سب سے بڑی کمزوری ہے، چنانچہ حضرت آدم سے بھی یہی کچھ ہوا کہ وہ حوّا کے بھرے میں آگئے۔ بلکہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت آدم کو اعتماد میں رکھ کر در پردہ ان کی مرضی کے علی الرغم بھی کچھ نہ کچھ کام کر ڈالے۔ چنانچہ حضور نے اسے یوں بیان فرمایا۔
لو لا حوا لم تخن انثی زوجھا (بخاری کتاب الانبیاء ص ۴۶۹/۱)
اگر حوّا نہ ہوتی (تو)کوئی بھی عورت اپنے شوہر کی خیانت نہ کرتی۔