کتاب: محدث شمارہ 42 - صفحہ 20
کیا گیا؟ کیونکہ وہ رفیقۂ حیات ہے، سفرِ حیات میں اسے پہلو بہ پہلو رہنا ہے، جینا ہے اور رفیق کی یہ خصوصیت ہے کہ وہ پہلو میں رہتا ہے، اس دل میں بستا ہے جو پہلو میں آباد ہے۔ علاقہ قرطبی کا ارشاد ہے کہ الامرأۃ، المرء سے ماخوذ ہے۔ المرء کے معنی مرد کے ہیں ، کیونکہ اس کا ظہور مرد کے جسم سے ہوا ہے۔ حوّا کا لفظ بھی بتاتا ہے کہ وہ حیَّ (زندہ)سے ظاہر ہوئی ہے۔ امام شافعی فرماتے ہیں کہ لڑکی کا پیشاب لڑکے کی بہ نسبت غلیظ ہوتا ہے کیونکہ لڑکے کی نمود مٹی سے ہوئی ہے اور لڑکی کی آدم کے گوشت سے۔ علماء کی ایک جماعت کا خیال ہے کہ پسلی سے پیدائش نہیں ہوئی بلکہ مطلب یہ ہے کہ اس کی پیدائش یوں ہوئی جیسی پسلی کی، اس کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ ایک اور روایت میں المرأۃ کا لضلع (بخاری باب المداراۃ مع النساء کتاب، النکاح)عورت، پسلی کی مانند ہے آیا ہے اور بعض روایات میں انما المرأۃ کا لضلع آیا ہے (فتح ص ۲۵۲/۶) بخاری کے ایک شارح نے لکھا ہے کہ جب وہ جاگے تو بائیں جانب حوا کو بیٹھا پایا۔ خلقت من ضلع کے یہی معنی ہیں ۔ والمشھور انھا خلقت من ضلع الیسر ورایت مصنفا مر علیہ وقال ان اٰد علیہ السلام انتبہ مرۃ من منا مہ فاذا حواء جالسۃ علی یسادہ وھذا معنی مخلوقۃ من ضلع ای رأھا مخلوقۃ نحو یسارہ (فیض الباری ص ۱۸/۴) حضرت آدم اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مابین ایک مثالی مکالمہ ہوا جس میں حضرت موسیٰ نے اعتراض کیا کہ آپ کی خطا ہمارے لئے وجہ شامت بنی، حضرت آدم نے کہا، کیا آپ نے یہ دیکھا تھا کہ مجھے یہ پیش آنا تھا؟ کہا ہاں ، فرمایا: پھر تقدیر کے سامنے میری کیا مجال؟ ثم تلومنی علی امر قد قدّر علی قبل ان اخلق (بخاری۔کتاب الانبیاء ص ۴۸۴/ج۱) مصائب کا انتساب تقدیر کی طرف بجا ہے لیکن خطا کا نہیں ، بات بھی مصیبت کی ہوئی تھی معصیت اور لغزش کی نہیں ! دراسل مصائب کی نوعیت ابتلاء کی ہوتی ہے یا اپنی حماقتوں کا نتیجہ، ابتلاء ہے تو ہرچہ از دست دوست آید، درست آید کے مطابق راضی بہ رضا رہنے میں اجر ملتا ہے۔ اگر خطا ان کا سبب ہوتا تو توبہ کی توفیق ملتی ہے۔ یہاں تقدیر کو گناہوں کے لئے بہانہ نہیں بنایا گیا بلکہ مصیبت میں خدا کے سامنے اپنی بے بسی کا اعتراف کیا گیا ہے۔ اور یہ بجائے خود عبادت ہے۔ کیونکہ وہاں حضرت آدم علیہ السلام سے جو کچھ سرزد ہوا، نسیانا ہوا