کتاب: محدث شمارہ 42 - صفحہ 17
﴿تَنْزِعُ النَّاسَ کَاَنَّھُمْ اَعْجَازُ نَخْلٍ مُّنْقَعِرٍ﴾ (پ۲۷۔ القمر۔ ع۱) ﴿فَتَرَی الْقَوْمَ فِیْھَا صَرْعٰی کَاَنَّھُمْ اَعْجَازُ نَخْلٍ خَاوِیَۃٍ ﴾(پ۲۹۔ الحاقہ۔ ع۱) اگر صدیوں بعد بھی اتنے لمبے ترنگے انسانوں کے ڈھانچے ہو سکتے ہیں تو آغاز میں اتنے لمبے قد و قامت کی بات کچھ خلاف توقع نہیں ہو سکتی۔ یا ہو سکتا ہے کہ ’’ستون ذراعاً‘‘ کا مفہوم بہت لمبا قد ہو۔ بہرحال حضرت آدم علیہ السلام غیر معمولی قد و قامت کے مالک تھے، ہاں بعض روایات سے پتہ چلتا ہے کہ یہ قد و قامت اس زمانے کی بات ہے جب آسمان (یعنی)بہشت میں تھے۔ ستون ذراعا فی السماء چنانچہ بعض علماء کا کہنا ہے کہ جب ہبوط (آسمان سے نکالے گئے)ہوا تو قد و قامت میں مناسب تخفیف بھی کر دی گئی۔ صاحب فیض الباری فرماتے ہیں کہ جغرافیائی اختلاف کا اثر قد و قامت پر پڑتا ہے، آسمان پر لمبے ترنگے رہے ہوں زمین پر آگئے تو قد و قامت بھی گھٹ گیا، یعنی جنت میں لمبا قد ہوا اور زمین پر آکر حسبِ حال ہو گیا۔ ویحتمل ان یکون مراد الحدیث انہ کان قدر طولھم ھذا فی الجنۃ فاذا نزلوا عادوا الی القصر فان الاحکام تتفاوت بتفاوۃ البلد ان والاوطان فیض الباری ص۱۷، ج۴) اس کے علاوہ: یہ ساٹھ ذراع، شرعی ذراع تھے، جو ہمارے حساب سے وہ تیس بنتے ہیں ۔ قوم عاد کے واقعہ کو ملا کر دیکھا جائے تو پھر یہ بات کچھ اُن ہونی نہیں رہتی۔ رنگ ان کا گندمی اور شکل نہایت حسین و جمیل تھی (سیرت حلبیہ ص ۴۲۷،ج۱)ابی بن کعب سے مرفوعاً آیا ہے کہ: آدم کو لمبا، جیسی لمبی کھجور اور سر کے گھنے بالوں والا اللہ نے بنایا۔ ان اللّٰه خلق اٰدم رجلا طوالا کثیر شعر الراس کانہ نخلۃ سحوق (رواہ ابن ابی حاتم باسنادٍ حسن۔ فتح الباری پ ۳۶۷ کتاب الانبیاء) اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم کو اپنی صورت پر بنایا تھا۔ عن ابی ھریرۃ عن النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم قال خلق اللّٰه ادم علی صورتہ (بخاری کتاب الاستیذان باب بدء السلام ص ۹۱۹/۲) اس کے کئی ایک معنی بیان کئے جا سکتے ہیں : ایک یہ کہ: ان کو بہت حسین و جمیل بنایا۔ کیونکہ بنانے والا خود بہت حسین و خوبصورت ہے۔ ان اللّٰه جمیل یحب الجمال (مسلم، ترمذی عن ابن مسعود) اس کی تائید اس روایت سے بھی ہوتی ہے، کہ معراج کے واقعہ میں حضور نے ان سے اپنی ملاقات