کتاب: محدث شمارہ 42 - صفحہ 16
اس سلسلے میں احادیث سے بھی کچھ مزید معلومات حاصل ہوتی ہیں ۔ چنانچہ حضور کا ارشاد ہے کہ آدم سلسلہ تخلیق کی آخری کڑی ہے، جس کی تخلیق جمعہ کے دن، عصر کے بعد، غروب آفتاب سے پہلے ہوئی تھی۔
وخلق اٰدم بعد العصر من یوم الجمعۃ فی آخر الخلق واٰخر ساعۃ من نھار فیما بین العصر الی اللیل (رواہ مسلم۔ ابو ھریرۃ)
ایک اور حدیث میں ہے کہ جمعہ کو ہی بہشت میں داخل کئے گئے تھے اور جمعہ کو ہی وہاں سے خارج کئے گئے تھے۔ وفیہ ادخل الجنۃ وفیہ اخرج منھا (مسلم)
زمین کے مختلف حصوں سے تھوڑی تھوڑی مٹی جمع کر کے جسدِ آدم تیار کیا گیا، جس طرح مختلف علاقوں کی زمین کی خاصیت ایک دوسرے سے مختلف یا متنوع ہوتی ہے، اسی طرح نسلِ انسانی بھی تیار ہوئی، گورے، کالے یا اچھے اور برے وغیرہ۔
ان اللّٰه عزوجل خلق اٰدم من قبضۃ قبض من جمیع الارض، فجاء بنو اٰدم علی قدر الارض، جاء منھم الابیض والاحمر والاسود وبین ذلک والخبیث والطیب واسھل والحزن فذکر مثلہ (مسند احمد وکتاب الاسماء والصفات بیھقی وابن حبان۔
﴿وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ سُلٰلَۃٍ مِّنْ طِیْنٍ﴾ (پ۱۸۔ المومنون۔ ع۱)کا مفہوم بھی اگر وہ تصور کیا جائے جو مندرجہ بالا حدیث میں بیان کیا گیا ہے تو زیادہ مناسب محسوس ہوتا ہے۔
آدم کی تخلیق بہشت میں ہوئی۔ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم کو بنا کر رکھ چھوڑا تو ابلیس نے اس کے گرد چکر لگا کر دیکھا کہ یہ اندر سے کھوکھلا ہے۔ چنانچہ وہ پہچان گیا کہ یہ بے قابو اور بے بس ہستی ہے۔
لما صور اللّٰه اٰدم فی الجنۃ ترکہ ما شاء اللّٰه ان یترکہ فجعل ابلیس یطیف بہ ینظر ما ھو فلما راہ اجوف عرف انہ خلق خلقا لا یتمالک (روہ مسلم واحمد۔ انس)
بخاری شریف کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت آدم کا جو جسدِ مبارک تیار کیا گیا تھا کافی لمبا تھا، ساٹھ گز کا تھا۔
خلق اللّٰه ادم وطولہ ستون ذراعا (بخاری۔ کتاب الانبیاء)
اس پر اعتراض کیا گیا ہے کہ آثارِ قدیمہ سے اس کی تائید نہیں ہوتی (قالہ الحافظ)مگر قرآنِ مجید میں قومِ عاد کی لاشوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ گویا وہ اکھڑی ہوئی کھجوروں کے تنے ہیں ۔