کتاب: محدث شمارہ 42 - صفحہ 15
آدم کی تخلیق کےبعد اس کا سلسلہ نسل آگے بڑھانے کے لیے خدانے یہ کیا کہ :آدم زمین کی پیداوار سےجو غذا حاصل کرتا اس سے مادہ منویہ بنایا گیا۔ جس سے آگے نسل کی تخم ریزی ہوئی ۔ ﴿ وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ مِنْ سُلَالَةٍ مِنْ طِينٍ﴾ (پ ۱۸۔ المومنون ع ۱ اور ہم نے انسان کو مٹی کے خلاصے، جوہر اور ست سے بنایا۔ دوسری جگہ اسے یوں بیان فرمایا: ﴿ثُمَّ جَعَلَ نَسْلَہ مِنْ سُلٰلَۃٍ مِّنْ مَّاءٍ مَّھِیْنٍ﴾ (پ۲۱۔ السجدہ۔ ع۵) پھر (مٹی کے)نچوڑ سے جو ایک حقیر پانی ہے، اس کی نسل چلائی۔ سورت فرقان میں ہے: ﴿خَلَقَ مِنَ الْمَآءِ بَشَرًا فَجَعَلَہ نَسَبًا وَّصِھْرًا ﴾(پ۱۹۔ الفرقان۔ ع۵) انسان کو پانی (منی)سے پیدا کیا، پھر اسے خاندان والا اور سسرال والا بنایا۔ پھر اس نطفہ سے لوتھڑا، پھر بوٹی، پھر بوٹی مع گوشت بنا کر ایک نیا ڈھانچہ بخشا۔ ملاحظہ ہو سورت المومنون پ۱۹ ع۱۔ الغرض مٹی سے آدم (سب سے پہلا انسان)بنا، پھر اس کے بعد نسلِ انسانی کے لئے دوسرا نظام تجویز فرمایا، یعنی غذا کے نچوڑ سے منی، پھر مادرِ رحم میں مدتوں رہنے کے بعد لوتھڑا، بوٹی، ہڈی وغیرہ کے بعد حسین و جمیل ’’ابن آدم‘‘ نمودار ہوا۔ اس کو قرآن نے قَدْ خَلَقَکُمْ اَطْوَارًا (پ۲۹۔ نوح۔ ع۱)سے تعبیر فرمایا ہے۔ ایک منکرِ حدیث نے، اس سلسلے میں انسان، آدم اور ابنِ آدم کی قرآنی وضاحت کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔ انسان دراصل آدم اور ابن آدم کی نوعی ماہیت کی ایک تعبیر ہے۔ جسے یہ صاحب سمجھ نہیں سکے۔ فلسفہ کا یہ مشہور مسئلہ ہے کہ وجود ماہیت کا عین ہوتا ہے، زائد شے کا نام نہیں ہے غور فرمائے۔ شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے ہر شے کی نوعی ہیئت اور حیثیت کے لئے ’’عالمِ مثال‘‘ کا فلسفہ تشخیص فرمایا ہے، جس میں ’معانی‘ اپنی مناسب شکل میں پہلے موجود ہوتے ہیں ۔ اس کے بعد اس عنصری دنیا میں اس کے ظہور کی صورت بنتی ہے (حجۃ اللہ)شیخ الاشراق۔ اس کو ’اشباح‘ اور غزالی خیال تمثل سے تعبیر کرتے ہیں ۔ بہرحال یہ انفرادی قسم کی ذوقیات ہیں ، ورنہ خارج میں ’مجرد کلی‘ کے وجود کا تصوّر محال ہے۔