کتاب: محدث شمارہ 42 - صفحہ 14
اصل میں ان کو مغالطہ ان آیات سے لگا ہے، جن میں اس کی پیدائش کے سلسلے میں مختلف مراحل کا ذِکر آیا ہے، جس سے وہ یہ سمجھے کہ، یہ کسی خلیہ کا ذِکر ہے، جس میں ایک لیسدار مادہ موجود ہوتا ہے جو زندگی کے سارے امکانات اپنے اندر رکھتا ہے جسے نفس واحدہ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ حالانکہ یہ اطوار اور مراحل تخلیقِ آدم کے بعد کے ہیں یعنی سلسلۂ نسلِ انسانی کے۔
جب حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق کے سارے مراحل طے ہو گئے، ساخت مکمل ہو گئی اور روح پھونک دی گئی تو ابلیس کے سوا تمام فرشتے سجدہ میں جھک گئے۔
﴿فَسَجَدَ الْمَلٰٓئِکَۃُ کُلُّھُمْ٭ اَجْمَعُوْنَ۔ اِلَّا اِبْلِیْسَ﴾ (پ۲۳۔ صٓ۔ ع۴)
اس کے بعد حکم ہوا کہ :دونوں میاں بیوی بہشت میں قیام کرو اورجہاں سے جوجی چاہے کھاڑ (پیو) لیکن دیکھیے : وہ شجر جو نظر آتاہے یامحسوس ہوتاہے کہ اس کےنزدیک بھی نہ جانا :(سورۂ بقرہ ،ع۴) خیال رکھیے؛ یہ شیطان آپ کا دشمن ہے ۔ ﴿ إِنَّ هَذَا عَدُوٌّ لَكَ وَلِزَوْجِكَ ﴾ (طہ،ع۶)
مگر شیطان نے فریب دےکر انہیں بھٹکا دیا اور یہ جوکچھ ہوا نا دانستہ ہوا۔
﴿ وَقَالَ مَا نَهَاكُمَا رَبُّكُمَا عَنْ هَذِهِ الشَّجَرَةِ إِلَّا أَنْ تَكُونَا مَلَكَيْنِ أَوْ تَكُونَا مِنَ الْخَالِدِينَ (20) وَقَاسَمَهُمَا إِنِّي لَكُمَا لَمِنَ النَّاصِحِينَ () فَدَلَّاهُمَا بِغُرُورٍ﴾(پ ۱۶، الاعراف،ع ۲
﴿فَنَسِيَ وَلَمْ نَجِدْ لَهُ عَزْمًا ﴾ (پ ۱۶، طہ ،ع۶)
معلوم ہوتاہے کہ وہ اصلی بہشت تھا جس نے انہوں نے قیام کیا تھا، کیونکہ وہاں کا لباس روحانی اورمعنوی نوعیت کا تھا ، چنانچہ جب ایک غلطی سرزد ہوئی تووہ روحانی لباس بھی متاثر ہوا اور ستر کھل گیا ۔
﴿فَأَكَلَا مِنْهَا فَبَدَتْ لَهُمَا سَوْآتُهُمَا ﴾ (طہ ع۴)
اب حکم ملاکہ :آپ اب یہاں سےتشریف لے جائیں ۔
﴿ اهْبِطَا مِنْهَا جَمِيعًا ﴾(طہ ، ع ۶)
ہاں جب میری طرف سےرہنمائی پہنچے تو جو اس کااتباع کرےگا وہ بھٹکے گا نہ محروم رہے گا ۔ یعنی یہ گم گشتہ جنت بھر پالے گا ۔
﴿فَإِمَّا يَأْتِيَنَّكُمْ مِنِّي هُدًى فَمَنِ اتَّبَعَ هُدَايَ فَلَا يَضِلُّ وَلَا يَشْقَى﴾ (طہ ، ع ۶
جس کی آنکھ اب بھی نہ کھلی وہ ازلی اندھا قیامت میں بھی اندھا اٹھے گا۔
﴿نَحْشُرُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَعْمَى ﴾(طہ ،ع ۶)