کتاب: محدث شمارہ 42 - صفحہ 13
اِسے طِیْنٍ لَّازِبٍ (پ۲۳۔ الصفت۔ ع۱)چپچپی مٹی سے تعبیر فرمایا ہے۔
لازب سے مراد وہ مٹی ہے جو خوب چپکتی ہے، یہ عموماً جوہڑوں کے کناروں اور تالابوں کی تہوں میں ہوتی ہے، دوسرے مقام پر فرمایا۔
﴿مِنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَأٍ مَّسْنُوْنٍ﴾ (پ۱۴۔ الحجر۔ ع۳)کالے (اور)سڑے ہوئے گارے سے جو (سوکھ کر)کھن کھن بولنے لگتا ہے۔
سورۂ رحمٰن میں فرمایا: ﴿مِنْ صَلْصَالٍ كَالْفَخَّارِ ﴾ (پ۲۷۔ الرحمٰن۔ ع۱)ایسی کھنکھناتی مٹی سے جیسے ٹھیکرا۔
امام بخاری رحمہ اللہ لکھتے ہیں : صلصال، طین، خلط برمل فصلصل کما صلصل الفخار (کتاب الانبیاء باب خلق آدم)
گارا جس میں ریت ملی ہو، سو وہ آواز دیتا ہے جیسے ٹھیکری آواز دیتی ہے۔
کچھ لوگ کہتے ہیں : بلکہ یہ ایک نوع کی تخلیق ہوئی جسے نوع انسان کہا گیا ہے۔ لہٰذا آدم سے یہ مراد نہیں کہ وہ سب سے پہلا انسان تھا مگر ہمارے نزدیک یہ مغربی افکار کی خوشہ چینی ہے۔ اصل میں یہی آدم وہ پہلا انسان ہے جو کسی مغربی جرثومہ کی ارتقائی شکل نہیں ہے بلکہ براہِ راست مٹی سے تخلیق ہوا۔ چنانچہ اوپر کی سطور میں اِسی آدم کے جسد کا ذِکر کیا گیا ہے جس میں حق تعالیٰ نے روح پھونکی اور ملائکہ اس کے حضور جھکے۔
﴿وَاِذْ قَالَ لِلْمَلٰٓئِکَۃِ اِنِّیْ خَالِقٌ بَشَرًا مِّنْ صَلْصَالٍ حَمَأٍ مَّسْنُوْنٍ۔ فَاِذَا سَوَّیْتُہ وَنَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رُّوْحِیْ فَقَعُوْا لَہ سٰجِدِیْنَ ﴾(پ۱۴۔ الحجر۔ ع۳)
اور یاد کرو وہ وقت جب آپ کے رب نے فرشتوں سے کہا ہ میں کالے (اور)سڑے ہوئے گارے سے جو (سوکھ کر)کھن کھن بولنے لگتا ہے۔ ایک بشر پیدا کرنے والا ہوں ، تو جب میں اس کو پورا بنا چکوں اور اس میں اپنی (طرف)سے روح پھونک دوں تو تم اس کے حضور جھک جانا۔
ابلیس نے بھی اِسی انسانِ اوّل (آدم)کے حجور جھکنے سے انکار کر دیا تھا۔
﴿قَالَ اَنَا خَیْرٌ مِّنْہُ خَلَقْتَنِیْ مِنْ نَّارٍ وَخَلَقْتَہ مِنْ طِیْنٍ﴾ (پ۲۳۔ صٓ۔ ع۵)
(ابلیس)بولا، میں اس سے بہتر ہوں مجھے آپ نے آگ سے بنایا، اسے مٹی سے۔
﴿لَمْ اَکُنْ لِّاَسْجُدَ لِبَشَرٍ خَلَقْتَہ مِنْ صَلْصَالٍ مِنْ حَمَأٍ مَّسْنُوْنٍ ﴾(پ۱۴۔ الحجر۔ ع۳)
اور یہی وہ آدم ہے جس کو رب نے اپنے مبارک ہاتھوں سے بنایا۔ ﴿لِمَ خَلَقْتُ بِیَدَیَّ ﴾(پ۲۳۔ ص۔ ع۵)