کتاب: محدث شمارہ 42 - صفحہ 12
التفسیر والتعبیر عزیز زبیدی واربرٹن سورۃ بقرہ قسط (۱۳) قَالَ اِنِّیْٓ اَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ۔ وَعَلَّمَ اٰدَمَ (خدا نے)فرمایا میں وہ (مصلحتیں )جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے اور آدم کو سب ___________________________________________________ ۱؎ مَا لا تعلمون (جو تم نہیں جانتے)یعنی تخلیقِ آدم میں جو حکمتیں اور مصلحتیں ہیں ، وہ تم نہیں جانتے ہم جانتے ہیں ، اپنے فکر و خیال کی معصومیت کی وجہ سے، تم صرف اتنا ہی احساس کر سکے کہ پاک ذات کے دربارِ عالی کے لئے غلام اور خدّام بھی معصوم چاہئیں ، اس بارگاہ میں ہلڑ باز سجتے نہیں جپتے نہیں ، گو یہ بات شایانِ شان ہے لیکن خدا کی یہ کوئی نجی ضرورت نہیں ہے کیونکہ جو بارگاہ کی تقدیس کا احساس کریں گے، وہ دراصل اپنی پاکیزہ فطرت کا ثبوت مہیا کریں گے، جو ایسا نہیں کریں گے خدا کا کوئی نقصان نہیں کریں گے بلکہ خود ہی فاش ہوں گے کہ، شہنشاہ کے عظیم دربار میں حاضر ہونے کا سلیقہ ہی نہیں رکھتے۔ اس لئے بالآخر انہیں یک بینی و دوگوش پکڑ کر اُٹھا دیا جائے گا۔ بہرحال یہ کوئی مسئلہ نہیں ۔ اس کے علاوہ جو حکمتیں اور مصلحتیں ہیں بے شمار ہیں ، کچھ گز شتہ آیات میں آپ نے ملاحظہ فرما لی ہوں گی۔ ۲؎ آدم (ابو البشر، بابا آدم)یہ دنیا میں پہلے انسان ہیں ، اسے مٹی سے بنایا﴿ اِنَّا خَلَقْنٰکُمْ مِنْ تُرَابٍ﴾ (پ۱۴۔ الحج ع۱)﴿وَمِنْ اٰیٰتِہ اَنْ خَلَقَکُمْ مِنْ تُرَابٍ﴾(پ۲۱۔ الروم۔ ع۳)وہ مٹی خشک مٹی نہیں تھی گارا تھی۔ ﴿وبَدَأَ خَلْقَ الْاِنْسَانِ مِنْ طِیْنٍ﴾ (پ۲۱۔ السجدۃ۔ ع۱)اور انسان کی پیدائش گارے سے شروع کی۔ طِیْن پانی میں ملی ہوئی مٹی کو کہتے ہیں خواہ وہ بعد میں خشک بھی ہو گئی ہو، دوسری جگہ