کتاب: محدث شمارہ 42 - صفحہ 10
قاتل کا سر قلم کر دیا گیا۔ اسلامی قانون کی برکات شاہ فیصل شہید رحمۃ اللہ علیہ کے قاتل کا سر قلم کر دیا گیا۔ یہ شہزادہ ایک عام مجرم کی طرح لایا گیا اور باقاعدہ اس کی تشہیر کی گئی۔ چنانچہ ہزاروں نے اپنی آنکھوں سے یہ نظارہ دیکھا۔ یہ مخمصہ سعودی حکومت کے لئے ایک آزمائش بن گیا تھا اور اسلامی قانونِ عدل کے سلسلے میں ایک کسوٹی، جو بحمد اللہ خیر و خوبی سے گزر گیا۔ قاتل دراصل اسلام کی راہ روکنا چاہتا تھا۔ وہ سمجھتا تھا کہ شاہ فیصل کے بعد سعودی عرب میں شاید اسلام کا چراغ بجھ جائے گا۔ لیکن جاتے ہوئے اس نے دیکھ لیا کہ سعودی عرب میں اسلام اب بھی ایک غالب طاقت کی حیثیت میں ہے۔ اس سے بڑھ کر اورظنی ثبوت اس کا اور کیا ہو سکتا ہے کہ: مملکت کے اسلامی قانون نے ایوانِ شاہی میں بھی پہنچ کر اپنی حکمرانی کا اٹل ثبوت مہیا کر دیا۔ اگر یہ بات نہ ہوتی تو اس کا سر کیسے قلم ہوتا؟ ایسے ہزاروں قاتل شاہ فیصل کے المیہ پر قربان کر دیئے جائیں ، تو بھی شاہ فیصل کے نقصان کی تلافی نہیں ہو سکے گی۔ شاہِ فیصل، صرف عالمِ عرب کی جان نہیں تھے پورے عالمِ اسلام کی روح اور جان تھے۔ رحمہ اللہ تعالیٰ۔ جب شاہ فیصل شہید کئے گئے اور پولیس کی تفتیش کا سلسلہ دراز ہو گیا تو چہ میگوئیاں ہونا شروع ہو گئی تھیں کہ گھر کی بات ہے اور گھر کا مجرم ہے۔ اس لئے ہاتھ ڈھیلے پڑ گئے ہیں ، اسے پھانسی دینا مشکل ہے وغیرہ وغیرہ۔ لیکن جب اس کا سر قلم ہوا تو دنیا ششدر رہ گئی کہ، سعودی عرب میں اسلامی قانون کی حکمرانی ابھی قائم ہے۔ شاہ فیصل تو ایک عظیم انسان تھے، اسلامی قانونِ عدل تو کتے کے پینے والے پیالے کے نقصان تک کا تاوان بھی دلواتا ہے۔ حضرت خالد کو قبیلہ بنی جذیمہ میں تبلیغ کے لئے تعینات کیا گیا تو ان سے کچھ لغزشیں ہو گئیں ۔ حجور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس کی تلافی کے لئے ضرت علی کو بھیجا اور فرمایا کہ جا کر ان کا نقصان پورا کرو۔ چنانچہ انہوں نے سب کا خونبہا ادا کیا یہاں تک کہ