کتاب: محدث شمارہ 41-40 - صفحہ 9
کے خلاف تلوار بھی نہیں اُٹھائی تھی تاہم ان کو عددی قوت بہم پہنچائی۔ جب مسلمانوں کے تیروں سے وہ کھیت ہو رہے تو فرشتوں نے پوچھا کہ تم کس حال میں تھے، بولے کمزور اور بے بس تھے۔ فرشتوں نے کہا کہ بجا! کیا اس سے بھی کمزور تھے کہ وہ خطّہ ہی چھوڑ دیتے۔ فانزل اللّٰه تعالٰی: اِنَّ الَّذِیْنَ تَوَفّٰھُمْ الْمَلٰٓئِکَةُ ظَالِمِيْ اَنْفُسِھِمْ (بخاري)
الغرض اپنے منہ میاں مٹھو بن کر اس نامراد ’نا مسلمانی‘ کے باوجود اگر ہم اپنے کو مسلمان کہتے رہے اور نا مسلمانی کے سلسلے میں ادھر ادھر کے حیلے تراشتے رہے تو یقین کیجیے: ان میں سے کوئی بھی چیز کام نہیں آئے گی اور نہ ہم اس مخمصہ سے نکل پائیں گے جس میں آج پورا عالمِ اسلام مبتلا ہے، بلکہ سزا نا مسلمانی کی پا رہے ہیں ۔ لیکن دنیا یہ تصور کرنے لگی ہے کہ:
مسلمان، مسلمانی کی سزا پا رہے ہیں ۔ گویا کہ ہم نہ صرف سزا پا رہے ہیں بلکہ اسلام کو بھی بدنام کر رہے ہیں ۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْهِ رَاجِعُوْنَ
ہاں آپ یہ فرما سکتے ہیں کہ بیشتر آیات کا تعلق کفار اور منافقین سے ہے، ہم بھی اس سے اتفاق کرتے ہیں ، اور اس کی وجہ بھی صرف یہی ہے کہ، اس وقت ایسے کام کفار اور منافقین ہی کیا کرتے تھے مسلمان نہیں کرتے تھے۔ اب مسلمان بھی کرنے لگ گئے ہیں ، اصل بات کام کی ہے نام کی نہیں ہے۔ کافر ہو کر اگر ایسا کریں تو ان پر کوئی الزام نہیں کیونکہ وہ اس کو مانتے ہی نہیں ، الزام تو مسلمانوں پر ہے کہ مان کر وہ کام کرتے ہیں جو نہ ماننے والے کیا کرتے ہیں ۔ یہ تو بے انصافی ہے کہ پرائے کریں تو گردن زدنی اپنے کریں تو ’سب خیر‘ خدا سے بہرحال اس بے انصافی کی توقع کرنا خدا نافہمی کی بدترین مثال ہے۔