کتاب: محدث شمارہ 41-40 - صفحہ 8
نافرمانوں کے ہو سکتے ہیں تو غور فرمائیے! اس ’’نامسلمانی‘‘ کو کوئی کیسے مسلمانی تصور کرے۔ یہاں تک کہ ان تمام حماقتوں کے باوجود اس خوش فہمی میں مبتلا ہوں کہ یہ خدا کے مقبول لوگ ہوں جیسا کہ یہود و نصاریٰ کا حال تھا کہ کرتے سب نا مناسب اور ایمان کُش حرکتیں مگر دعوے کرتے کہ ہم خدا کی روحانی اولاد اور محبوب بندے ہیں ۔ ﴿قَالَتِ الْیَھُوْدُ وَالنَّصٰرٰي نَحْنُ اَبْنَآءُ اللّٰهِ وَاحِبَّآءُه ﴾(پ۶۔ المائده۔ ع۳) اس پر خدا ان سے پوچھتا ہے کہ اگر یہ بات ہے تو پھر تمہیں جوتے کیوں پڑتے ہیں ۔ ﴿قُلْ فَلِمَ یُعَذِّبُکُمْ بِذُنُوْبِکُمْ ﴾(مائدہ۔ ع۳) قارئین سے درخواست ہے کہ آپ ان تمام تصریحات اور انکشافات کو جو قرآن پیش کر رہا ہے اپنے ماحول، اپنی ذات، اور اپنے سیاسی رہنماؤں پر منطبق کر کے دیکھیں کہ کیا اِن میں اور اُن میں کچھ تفاوت رہ گیا ہے؟ اگر نہیں اور یقیناً نہیں تو پھر آپ کو غور کرنا چاہئے کہ: اب یہ کانٹا بدلنا چاہئے یا اس کے نتائج کا مزہ چکھنے کے لئے مزید تیاری کر لینی چاہئے؟ بہرحال آپ دل سے یہ خیال نکال دیں کہ آپ اس اسلام کے حامل ہیں جو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کے توسط سے پیش فرمایا تھا۔ اگر ہم یہ کہیں کہ اگر حضوردیکھ لیں تو ضرور بول اُٹھیں گے۔ فَسُحْقًا سُحْقًا لِّمَنْ احدث بعدی او کما قال اے متجد دین! دفع ہو جاؤ! اصل اسلام کا تقاضا ہے کہ: قرآن و سنت کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے جائیں اور اس کے باب میں کسی سے پوچھنے کی تحریک ہی دل میں پیدا نہ ہو۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے حضور نے فرمایا کہ دنیا چاہتے ہو یا اللہ اور رسول کو؟ جا کر اپنے والدین سے مشورہ کر لو! حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا تڑپ گئیں بولیں : اَفِیْکَ يَا رَسُوْلَ اللّٰهِ اَسْتَشيرُ اَبَوَيَّ؟ بَلْ اَخْتَارُ اللّٰهَ وَرَسُوْلَه وَالَّدَار الْاٰخِرَةَ (مسلم) یا رسول اللہ! کیا آپ کے سلسلے میں والدین سے مشورہ کروں ؟ (اوخو! یہ کیسے ہو سکتا ہے؟)بلکہ میں اللہ، اس کے رسول اور (دنیا کے بجائے صرف)آخرت کو اختیار کرتی ہوں ۔ باقی رہے بہانے؟ یہ بہانے ہی رہیں گے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ: مسلمان مجبوراً مشرکین کے ہمراہ میدانِ جہاد میں شریک ہوئے، دل میں اسلام تھا مگر کمزور تھے۔ گو مسلمانوں