کتاب: محدث شمارہ 41-40 - صفحہ 45
عقدۂ دل نہ کھلے ا۔ آخر بے چارے نے داڑھی حجام کے سپرد کی اور جیسا خشخاشی خط مرزا صاحب کا تھا ویسا ہی رکھ کر مریدوں میں داخل ہو گئے۔ ‘‘ [1]
محمد حسین آزاد نے اُردو شعراء کا تذکرہ ’’آبِ حیات‘‘ لکھتے ہوئے تحریری مواد کے علاوہ سنی سنائی باتوں سے رنگ و روغن فراہم کیا ہے۔ ’’آب حیات‘‘ میں ایسی بے شمار سنی سنائی باتیں موجود ہیں جس میں سے ایک یہ ہے۔
پانچ سال دہلی میں قیام کیا پھر لکھنؤ تشریف لے گئے اور مرتے وقت تک وہیں رہے۔
وفات:
مولوی رحمان علی مؤلف تذکرہ علمائے ہند نے سن وفات ۱۱۲۸ھ / ۱۶-۱۷۱۷ء لکھی ہے۔[2] ’’نزہت الخواطر‘‘ میں ماہ ذی قعدہ ۱۱۸۰ھ / ۱۷۶۶-۶۷ء بتائی گئی ہے ۔ مگر یہ دونوں روایت غلط ہیں ۔
مولوی غلام یحییٰ، مرزا مظہر جانجاناں کے مرید تھے۔ مظہر جانجاناں ۱ میں پیدا ہوئے۔
۱۱۲۸ھ مولوی غلام یحیٰ کی سنِ وفات نہیں ہو سکتی کہ سترہ سال کی عمر میں مظہر جانجاناں[3] ایسے بلند و مرتبہ مرشد نہیں ہو سکتے تھے۔ انہوں نے مولوی موصوف کے ایک رسالہ پر تقریظ بھی لکھی ہے جو سترہ سال یا اس سے کم عمر میں ممکن نہیں ۔
مظہر جانجاناں نے ان کا سانحۂ ارتحال لکھا ہے اور سالِ وفات ۱۱۸۶ھ بتایا ہے ۔
تالیفات:
مولوی غلام یحییٰ سے مندرجہ ذیل کتابیں یاد گار ہیں ۔
۱۔ حاشیہ رسالہ میر زاہد۔ کتاب کا نام ’’لواء الھدیٰ فی اللیل والدجٰی‘‘ ہے۔ ۲۔ حاشیہ شرح مسلم۔
۳۔ کلمۃ الحق۔
ڈاکٹر برہان احمد فاروقی کے بیان کے مطابق مولوی موصوف نے یہ رسالہ مظہر جانجاناں کے ایما پر شاہ ولی اللہ (م ۱۱۷۶ھ)کی تردید میں لکھا تھا۔ جس کا جواب شاہ رفیع الدین (م ۱۲۳۳ھ)نے ’’دمخ الباطل‘‘ کے نام سے لکھا ہے ۔ [4]
مزار:’’تذکرہ‘‘ کے بیان کے مطابق بہار میں شیخ شرف الدین کے احاطۂ درگاہ میں مدفون ہیں ۔ مگر ’’نزہت الخواطر‘‘ کے اندراج کی رُو سے لکھنؤ میں احاطہ شیخ پیر محمد میں مدفون ہیں ۔ آخر الذکربیان درست ہے۔
[1] تذکرہ ،ص: ۴۷۱
[2] نزہت الخواطر ، ج ۶ص۲۱۶
[3] کلیات طیبات ،ص ۷۰ بحوالہ حیات شبلی ،ص ۲۴ مقمہ
[4] حضرت مجدد کا نظریہ توحید ،ص ۱۲۸