کتاب: محدث شمارہ 41-40 - صفحہ 43
فرمایا یہ لا اور اِلّا جہان کن کی تقدیریں ہیں : ہر دو تقدیر جہاں کاف و نون حرکت از لا زاید از اِلّا سکون یہ ہر دو جہانِ کن کی تقدیریں ہیں کن کن کی حرکت لا سے پیدا ہوتی ہے۔ اور اِلّا سے سکون پکڑتی ہے۔ فرمایا اس لا الٰہ کی رمز سمجھے بغیر غیر اللہ سے چھٹکارا محال ہے۔ تانہ رمز لا الہ آید بدست بند غیر اللہ رانتواں شکست لا الا کی رمز جب تک ہاتھ نہیں لگتی، غیر اللہ کی بیڑیاں نہیں کٹ سکتیں ۔ علامہ کے نزدیک مظلوم ممولوں کو شاہیں سے لڑانا ہو تو نشۂ توحید اُن کو پلائیے۔ بندہ را بہ خواجہ خواہی در ستیز؟ تخم لَا در مشت او لبریز اگر چاہتے ہو کہ آقاؤں سے ایک مسکین لڑ جائے تو اس کی مشت خاک میں ’’لا الٰہ‘‘ کی تخم ریزی کر۔ علامہ اقبال کی مندرجہ بالا تلقین سوشلزم یا اسلامی سوشلزم کا نعرہ لگانے والوں کو ’’دعوتِ مطالعہ‘‘ دیتی ہے۔ یہ لوگ چاہتے ہیں کہ یہ ننگ دھڑنگ اٹھ کر آقاؤں کے گریبان پر اپنا ہاتھ ڈال لیں ۔ یعنی ان کو مٹا کر ان کی ہڈیوں پر اپنے مستقبل کی تعمیر کریں ۔ لیکن علامہ فرماتے ہیں جو کل تک بندہ تھے اب وہی آقا بن جائیں گے۔ آقاؤں کا خاتمہ تو پھر بھی نہ ہوا صرف شخصیتیں بدلیں اور بس۔ ان آقاؤں کو رام کرنے کی صحیح تدبیر یہ ہے کہ آقاؤں کو ’’میری‘‘ میں ’’فقیری‘‘ اور مسکینوں کو ’’فقیری‘‘ میں امیری سکھا دیں کہ یہ سماں طاری ہو جائے۔ بندہ و صاحب و محتاج و غنی ایک ہوئے تیری سرکار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے سوشلزم کے داعیوں کے پیش کردہ ’’بندہ و آقا کی آویزش‘‘ سے تخریب کے سامان تو ہو سکتے ہیں لیکن ایسی تعمیر نہیں رہتی جس سے ’’جذبہ انتقام‘‘ کی ریہرسل کا بھی خاتمہ ہو جائے۔ اور بندوں کی دنیا اور آخرت کی عافیتیں بھی سلامت رہ جائیں ۔ الغرض پاکستان بن جانے کے بعد یا کسی مسلم بر اور ملک کو سیاسی آزادی حاصل ہونے کے بعد اگر ان کو لا الٰہ الّا اللہ تک رسائی نصیب نہیں ہو سکی تو ہزار دعوؤں کے باوجود، آزاد اور احرار کہلانا خوش فہمی سے زیادہ وقعت نہیں رکھتا۔ صرف آقا ’’بدلے، غلامی کا داغ پیشانی سے نہ مٹ سکا۔ بندہ حرکی جو صفات اور علامات علامہ اقبال نے گنوائی ہیں ان کا مطالعہ کے بعد یوں محسوس ہوتا ہے کہ آزادی تو کجا ہم شاید مسلم بھی نہیں رہے۔ ورنہ جو کار زیاں اب روز افزوں ہے کم از کم اس کا سیلاب کہیں جا کر آخر تھمتا ہی۔ لیکن آپ دیکھ رہے ہیں کہ نفس و آفاق پر جو نحوست اور ادبار کی گھٹا چھا گئی ہے وہ چھٹنے کے بجائے اور دبیز ہوتی جا رہی ہے۔ آخر ہم اس آزادی کو کیا کریں ۔ یہ آزادی تو ...... ہندوستان میں بھی ممکن تھی۔ اگر یہ پاکستان وہی ہے جس کی نشاندہی علامہ اقبال نے کی تھی تو پھر اقبال کا وہ بندہ حُر کہاں ہے ’’جس کو اقبال کے پاکستان کا وارث بننا تھا۔‘‘