کتاب: محدث شمارہ 41-40 - صفحہ 42
ماہمہ عبد فرنگ او عبدہ او نہ گنجد درجہانِ رنگ و بو ہم فرنگی کے غلام وہ صرف اسی (ذاتِ حق)کا غلام، (کیونکہ)وہ جہان رنگ و بو میں سما سکتا نہیں ۔ ما گدایاں کوچہ گردد فاقہ مست فقرا و ازلا الٰہ تیغ بدست (پس چہ باید کرد) ہم منگتے اور فاقہ مست، (لیکن)اس کے فقر کے ہاتھ لا الٰہ (توحید)کی تلوار ہوتی ہے۔ علامہ مرحوم نے توحید اور لا الٰہ کی جو تلقین کی ہے، اس کا مفہوم بھی خود ہی بتاتے ہیں کہ لا الٰہ سے کیا مراد ہے اور یہ کیا رنگ لاتا ہے۔ مہر و ماہ گرد و زسوزِ لا الٰہ دیدہ ام ایں سوز رادر کوہ و کہ چاند سورج میں سوز لا الٰہ سے گردش کر رہے ہیں (یقین کیجئے)میں نے اس کی حرارت ہر چھوٹی بڑی شے میں دیکھا ہے۔ ایں دو حرفِ لا الٰہ گفتار نیست لا الٰہ جز تیغ بے زنہا نیست لا الٰہ کے یہ دو حرف صرف ورد کرنے کی چیز نہیں ہیں تو یہ باطل کے خلاف ایک تلوار ہیں ۔ زیستن باسوز اور قہاری است لا الٰہ ضرب است و ضرب کاری است کے سوز سے جینا چاہی سطوت کا ضامن ہے یہ ایک ضرب ہے اور ضرب بھی کاری۔ لا الٰہ ما سوی اللہ کی نفی کر کے تمام توجہات ذات واحد پہ مرکوز کر دیتا ہے۔ اس لئے اس سے بندہ حر خود سراپا قوت و ہیبت اور نور و سرور کا سر چشمہ بن جاتا ہے۔ قوتِ سلطان و میر از لا الٰہ ہیبت مردِ فقیر از لا الٰہ بادشاہ اور امیر کی قوت کا راز یہی توحید (لا الٰہ)ہے، مردِ درویش کی ہیبت کا چشمہ بھی یہی لا الٰہ ہے۔ تاد و تیغِ لَا و اِلّا دا شیتم ما سوی اللہ را نشاں نگذاشیتم جب تک ہمارے پاس ’’لا‘‘ اور ’’اِلا‘‘ کی دو تلواریں ہیں ، ہم نے دنیا سے غیر اللہ کا نام و نشان بھی مٹا دیا۔ دارم اندر سینہ نورِ لا الٰہ در شراب من سرور لا الٰہ میں لا الٰہ کا نور سینہ میں رکھتا ہوں اور میری شراب زندگی سرور لا الٰہ سے معمور ہے۔ فرماتے ہیں اگر لا الٰہ (توحید)کی تاب و تواں تجھ میں پیدا ہو جائے تو پھر یہ لوح و قلم بھی تیرے ہیں ۔ اگر بگیر دسوز تاب از لا الٰہ جز بکامِ او نہ گرد د مہر و ماہ اگر وہ لا الٰہ سے سوز و ساز حاصل کرے تو شمس و قمر بھی اس کی مرضی کے مطابق گردش کریں ۔ لَا و اِلّا احتساب کائنات لا والّٰا فتح بابِ کائنات لا اور الّا (دراصل)کائنات کے لئے احتسابی قوت ہیں اور انہی کے اعجاز سے کائنات کا دروازہ کھلتا ہے۔