کتاب: محدث شمارہ 41-40 - صفحہ 41
اے بہ تقلیدش اسیر آزاد شو دامن قرآن بگیر آزاد شو اے کہ تو فلاں کی غلامی میں گرفتار ہے۔ قرآن کا دامن پکڑ کر آزاد ہو جا۔ گویا کہ علامہ مرحوم کے نزدیک، بندہ وہی ہے جو بندوں کی غلامی اور ان کی نجی مصلحتوں سے بالا تر رہ کر صرف قرآن و سنت سے وابستہ رہتا ہے۔ مرحوم فرماتے ہیں کہ مملکت اسلامیہ نے کتاب و سنت سے دامن چھڑا کر ’’حریت‘‘ کا گلا گھونٹ دیا ہے۔ چوں خلافت رشتہ از قرآن گسیخت حریت راز ہر اندر کام ریخت جب مملکت اسلامیہ نے قرآن سے اپنا تعلق منقطع کر لیا تو اس نے حریت کے منہ میں زہر انڈیل دیا۔ فرمایا: غلام شب و روز میں گردش کرتا ہے تاکہ وقت پاس ہو، لیکن ’’بندۂ حر‘‘ بندہ ایام نہیں ہوتا، ان پر حکمران ہوتا ہے۔ کیونکہ وہ خدا کا نمائندہ ہوتا ہے۔ عبد گرد دیا وہ در لیل و نہار در دلِ حریا وہ گر ددر روزگار غلام تو رات دن کے چکروں میں کھو جاتا ہے مگر وہ بندہ حر کے قلب (نگاہ)کی وسعتوں میں کھو جاتا ہے مردِ خود راز گلِ برمیکند خویش رابر روز گاراں میتند مرد آزاد خود کو مٹی سے اونچا اٹھاتا اور وہ پورے زمانے پر چھا جاتا ہے۔ عبد چوں طائر بدام صبح و شام لذتِ پرواز برجانش حرام غلام ایک پرندے کی طرح صبح و شام کے جال کا اسیر ہے اور اس کی روح پر لذت پرواز حرام ہے۔ سینہ آزادہ چابک نفس طائر ایام را گردد قفس (اسرار خودی) بندۂ حر کا تیز چلنے والا سینہ طائر ایام کو پنجرے کی طرح اسیر کر لیتا ہے۔ فرمایا: بندۂ حر ما سوی اللہ سے آزاد ہوتا ہے۔ مرد حر از لا الٰہ روشن ضمیر می نہ گردد بندۂ سلطان و میر حر انسان کا دل توحید سے روشن ہوتا ہے وہ بادشاہ اور امیر کا غلام نہیں ہوتا۔ ما کلیسا دوست، ما مسجد فروش اوز دست مصطفیٰ پیمانہ نوش ہم کہیں قوم کلیسا کے مرید ہوتے ہیں اور کبھی مسجد فروش مگر وہ (بندہ حر)دستِ مصطفیٰ سے پیمانۂ توحید نوشی فرما ہوتا ہے۔ قبلہ ماگہ کلیسا گاہِ دیر او نخواہد رزق از دست غیر ہمارا قبلہ (حاجات)تو کبھی کلیسا اور کبھی بت خانہ ہوتا ہے۔ مگر وہ غیر اللہ سے رزق کا خواہاں نہیں ہوتا۔