کتاب: محدث شمارہ 41-40 - صفحہ 40
انسان نے اپنی کوتاہ بینی کی وجہ سے انسان کی غلامی اختیار کی اس کے پاس ایک ہیرا تھا جو اس نے شاہوں کے حوالے کر دیا۔
یعنی از خوئے غلامی زسگاں خوار تراست من ندیدم کہ سگے پیشِ سگے سرخم کرد
یعنی وہ اپنی خوئے غلامی کی بدولت کتوں سے بھی بدتر ہو رہا ہے۔ میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ ایک کتے نے دوسرے کتے کے سامنے سر جھکایا ہو۔ فرماتے ہیں گو غلام بظاہر سانس لیتا ہے۔ مگر اصل میں وہ مردہ ہے۔
نفس دار و لیکن جاں ندارد کسے کو بر مراد دیگراں زیست (پیام مشرق)
وہ (غلام)سانس تو لیتا ہے مگر روح نہیں رکھتا جو دوسروں کی مصلحت کے مطابق جیتا ہے۔
آقا گھڑ کر اس کی چاکری کرنے والا برہمن سے بھی بدتر کافر ہوتا ہے۔
از غلامی فطرتِ آزاد را رسوا مکن تا تراشی خواجۂ از برہمن کافر تری (بانگِ درا)
غلامی سے ’فطرِ آزاد‘ کو رسوا نہ کر جب تک تو آقاؤں کے بت بناتا رہے گا برہمن سے بڑھ کر کافر ہو گا۔ فرمایا غلام حافظ قرآن بھی ہو تو بھی اس سے ایمان کی امید نہ رکھ۔
ز غلامے لذت ایمان مجو گرچہ باشد حافظ قرآن مجو
غلام سے ایمان کی جاشنی کی امید نہ رکھ، وہ حافظ قرآن بھی ہو تو بھی توقع نہ رکھ۔
غلام نفس کا ہو یا کسی فرد کا، کسی حکمران کا ہو یا کسی قوم کا، وہ حکمران اپنا ہو یا غیر کا، قوم اپنی ہو یا کوئی دوسری، بہرحال علامہ اقبال کے نزدیک غلام حیوانوں سے بدتر ہے کیونکہ حیوانوں میں کتا سب سے ذلیل شے تصور کی جاتی ہے۔ لیکن اس کا حال یہ ہے کہ وہ اپنے مالک کا طوق تو گلے میں ڈال لیتا ہے۔ لیکن اپنے جیسے کتے کے سامنے وہ کبھی نہیں جھکتا۔ اس لئے اگر انسان انسان ہو کر کسی دوسرے انسان کی غلامی کا طوق اپنے گلے میں ڈال لیتا ہے تو ظاہر ہے کہ اس نے اتنی غیرت کا احساس اور مظاہرہ نہ کیا جتنا ایک کتا ملحوظ رکھتا ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ وہ اپنے مالک کا بے دام غلام رہتا ہے۔ لیکن یہ غلام اپنے حقیقی مالک یعنی حق تعالیٰ کی غلامی سے تو بدکتا ہے اور اس کے ہزاروں نام دھرتا ہے مگر ابنائے جنس کی غلامی کا طوق گلے میں ڈال کر اِتراتا ہے۔
غلامی یہ ہے کہ کسی برتر ہستی کی سند دیکھے بغیر وہ ایک شخص یا ٹولے کی چاکری کرے۔ اور محض اپنے سفلی مقاصد کی خاطر ان کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے ان کی خواہشات کا اتباع کرے۔ بہرحال اسلام نے اس کو ’’ابن آدم‘‘ بالخصوص ’’بندۂ مومن‘‘ کی عظمت، عزت، اور مقام و مرتبہ کے منافی قرار دے کر انسان سے مطالبہ کیا ہے کہ: