کتاب: محدث شمارہ 41-40 - صفحہ 38
قال الدارمی قلت لابن معین کیف حاله في نافع قال صالح ثقه (ميزان ص ۴۶۵/۲)
یہ روایت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے بھی مرفوعاً مروی ہے۔
لا یفسد الحلال الحرام (دار قطنی ص ۴۰۲/۲)
اس روایت میں پس منظر بھی یہی بیان کیا گیا ہے کہ ایک عورت سے ناجائز تعلق قائم کرنے کے بعد کیا وہ اس کی لڑکی یا ماں سے نکاح کر سکتا ہے؟ جواب میں فرمایا: حرام، حلال کو حرام نہیں کرتا۔ یعنی کر سکتا ہے۔
گو اس روایت میں عثمان بن عبد الرحمٰن متروک راوی ہے، تاہم نفس مضمون تعدد طریق کی وجہ سے قابلِ احتجاج ہے، موقوف آثار مزید اس کے مؤید ہیں ۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے تعلیقاً اور بیہقی نے موصولاً ابن عباس رضی اللہ عنہما سے یہ روایت بیان کی ہے کہ ایک شخص اپنی ساس سے ناجائز تعلق قائم کرتا ہے (اس کا کیا حکم ہے؟)فرمایا، اس پر اس کی بیوی حرام نہیں ہوئی۔
رجل غشی ام امرأته قال تخطي حرمتين ولا تحرم عليه امرأته (فتح الباري، قال الحافظ اسناده صحيح)
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کسی نے اس کے متعلق پوچھا تو جواب دیا: لا یحرم الحرام الحلال (فتح الباری)
اسی قسم کے ایک واقعہ پر حضرت سعید بن المسیب اور عروہ بن زبیر نے بھی یہی فتویٰ دیا ہے۔
الرجل یفجر بالمرأۃ ھل تحل له امھا فقالا: لا یحرم الحرام الحلال (التعلیق ص ۴۰۲/۲ المغنی عن الفتح)
احناف نے حرمت مصاہرت کے بارے میں جو علت بیان کی ہے بعض صورتوں کو انہوں نے خود ہی مستثنیٰ قرار دیا ہے مثلاً خود موطؤۃ۔
حرمتِ مصاہرت کے سلسلے میں بات صرف ’زنا‘ کرنے کی نہیں بلکہ وہ فرماتے ہیں شہوت سے چھو لینا یا شرمگاہ کو دیکھ لینا بھی حرمت مصاہرت کا موجب ہے، بظاہر یہ بات غیرتمندانہ محسوس ہوتی ہے اصل میں یہ ایک ذکاوت حس کی بات ہے مسئلہ کی نہیں ہے۔
اس کے یہ معنی نہیں کہ، یہ فعل برا نہیں ہے بلکہ اس کی معصیت یقینی ہے اور سنگین ہے لیکن یہ غلط ہے کہ، اس کی وجہ سے جو جائز بات ہے وہ بھی ناجائز ہو جائے۔ یہ تو ایسا ہوا جیسے ایک شخص جائز کاروبار بھی کرتا ہے اور اس سے الگ سودی کاروبار بھی رکھتا ہے، اب اس سے کہا جائے کہ وہ ’جائز کاروبار‘ بھی چھوڑ دے۔ یا ایک شخص جہاں سچ بولتا ہے، وہاں وہ جھوٹ بھی بول لیتا ہے۔ اب اسے کوئی کہے کہ یہاں آپ سچ بھی چھوڑ دیں ۔ ظاہر ہے کہ یہ غلط ہے۔ صحیح طریقِ کار یہ ہے کہ اس سے جھوٹ اور سود ہی چھوڑنے کو کہا جائے اور ایسا مؤثر اقدام کیا جائے کہ وہ ان برائیوں سے باز آجائے۔ بس یہی ہم یہاں چاہتے ہیں کہ یہ انتہائی سنگین جرم اور شرمناک معصیت ہے، اس سے توبہ کرنا چاہئے یا اسے گھر میں آنے سے روک دینا چاہئے۔ لیکن اس کی سزا ایک بے گناہ لڑکی کو نہیں ملنی چاہیے کہ اس شوہر سے جدا کر کے ناحق دکھ دیاجائے ۔