کتاب: محدث شمارہ 41-40 - صفحہ 36
معلوم ہوا کہ دینی پہلو ملحوظ رکھنا چاہئے جو آخرت کی سرفرازی کا بھی موجب ہو۔ اور دنیوی عافیت کا بھی۔ ۲۔ نکاح میں بھی چار چیزیں سامنے ہوتے ہیں (۱)وہ مال و دولت والے ہوں (۲)خاندانی ہوں (۳)حسین ہوں (۴)اور دیندار ہوں ۔ حضور کا ارشاد ہے: بس دیندار خاتون حاصل کیجیے۔ فاظفر بذات الدین (بخاری، مسلم، ابو داؤد، نسائی، ابن ماجہ) ۳۔ ایک اور حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ضروری نہیں ہے۔ حسب (خاندانی شرف)عمل صالح کا نتیجہ بھی ہو بلکہ اس کا تعلق زیادہ تر دھن دولت کی مقدار پر ہے۔ الحسب المال والکوم التقوی (حاکم عن سمرۃ) بعض روایات میں یہ الفاظ ہیں : ان احساب اھل الدنیا الذی یذھبون الیه المال (نسائي واحمد عن بريدة) گویا کہ جس کی جیب بھاری ہوتی ہے، دنیا اسے معزز اور خاندانی تصوّر کرتی ہے۔ اس لحاظ سے ’’نسب اور حسب‘‘ کو کفؤ شرعی کا حصہ قرار دینا، اسلامی روح اور معنویت کے خلاف ہے، کیونکہ ایمان اور عمل صالح کو جو بنیادی حیثیت حاصل ہے، وہ اب معیار نہیں رہیں گے بلکہ وہ بن جائیں گے جو جاہلی تھے اور جن کو اسلام مٹانے کے لئے آیا تھا۔ کیونکہ یہ سب نخوتِ جاہلیہ کی باتیں ہیں ۔ قال صلی اللّٰه علیہ وسلم لا فضل لعربی علی عجمی ولا لعجمی علی عربی ولا لابیض علی اسود ولا لاسود علي ابيض الا بالتقويٰ (زاد المعاد) ۴۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے جس شخص کے دین اور اخلاق سے آپ خوش ہیں اگر وہ رشتہ مانگے تو اسے دے دو، اسے دے دو، اسے دے دو ، تین بار کہا۔ ورنہ فتنہ اور فساد جنم لیں گے۔ ۵۔ اذا اتاکم من ترضون دینه وخلقه فانكحوه الا تفعلوه تكن فتنة وفساد كبير قالوا يا رسول اللّٰه وان كان فيه؟ قال اذا جاء كم من ترضون دينه وخلقه فانكحوه ثلٰث مرات (ترمذي وقال حسن غريب) تعامل: جن روایات میں کفو، کا ذِکر آتا ہے، وہ مجمل ہیں ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کے تعامل کو دیکھنا چاہئے کہ وہ کیا کیا کرتے تھے۔ ذیل کی روایات فقہی کفاءت کی تائید نہیں کرتیں ۔ حضرت فاطمہ بنت فہریہ قریشی خاندان سے تھیں مگر آپ نے اسے حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کے نکاح میں دلایا تھا۔ (زاد المعاد ص ۳۱)