کتاب: محدث شمارہ 41-40 - صفحہ 34
بس کھول دیا گیا۔ اور بس۔ ہمارے نزدیک ’مسنون کفاءت‘ کی یہ بھی ایک کرامت ہے، فللّٰہ الحمد۔ کفؤ: کفؤ کسی چیز کی نظیر یا ہم پلّہ ہونے کا نام ہے۔ باقی رہا یہ کہ: کس حیثیت سے اور کن کن پہلوؤں سے؟ سو حنفی فقہاء نے تو اس کو ’بحرِ محیط‘ بنا ڈالا ہے، چنانچہ لکھتے ہیں کہ: نسب، حریت اسلام، دیانت مال اور حرفت کے لحاظ سے کفؤ ملحوظ رہنی چاہئے۔ والكفاءة تعتبر نسبًا ..... وحرية واسلامًا وابوان فيھما كالآباء وديانة دما لا وحرفة (كنز العقائق ص ۱۰۰ فصل في الاكفاء كتاب النكاح) ستم ظریفی یہ کہ حضرت امام محمد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ، کفاءت میں باقی تو سب کچھ معتبر ہے لیکن ’دین‘ میں مماثلت ضروری نہیں کیونکہ اس کا تعلق آخرت سے ہے دنیا سے نہیں ہے۔ وقال محمده لا يعتبر لانه من امور الاخرة فلا تبتني احكام الدنيا عليه (هدايه ص ۳۲۰/۳) نہایہ میں ہے کہ ایک روایت امام ابو حنیفہ سے بھی یہی ہے۔ روی عن ابی حنیفة رواية اخری انه مع محمد فی انه غیر معتبر (نھایه) فقہاء نے یہ بھی لکھا ہے کہ ’’کفؤ‘‘ صرف مردوں میں تلاش کرنے کی ضرورت ہے، عورتوں میں ضروری نہیں ۔ من جانب الي الرجل لان الشريفة تابي ان تكون فراشًا للدني ولذا لا تعتبر من جانبھا (الدر المختار شرح تنوير الابصار ص ۱۶۷) اس کے علاوہ پاک و ہند کے مسلمانوں کے متعلق تو لکھا ہے کہ اب یہاں ’’نسب‘‘ کے لحاظ سے کفو کی تلاش ہی فضول ہے کیونکہ اب یہ یقینی نہیں رہا۔ وانما خص الکفائة فی النسب بالعرب لان العجم ضیعوا انسابھم (شرح وقایہ ص ۲۸/۲) کچھ اکابر نے عجم میں بھی بعض انساب کی نشاندہی کی ہے، مر اس سلسلے میں یقینی بات کہنا کچھ آسان کام نہیں ہے۔ اگر فقہاء کی تجویز کردہ کفاءت کو ملحوظ رکھا جائے تو ملّی وحدت عجمی چھوت چھات کے ہاتھوں پٹ جائے۔ بہرحال ہمارے نزدیک کفاءت مطلوب ہے لیکن صرف (۱)دین (۲)اور اخلاق میں ۔ مختصراً دلائل یہ ہیں ۔ قرآن: سب سے پہلے تو کفاءت کے تصور سے ہی بالا تر ہو کر قرآن نے ’دل پسند‘ کی قید لگائی ہے۔ چنانچہ فرمایا ہے۔ ﴿فَانْکِحُوْا مَا طَابَ لَکُمْ مِنَ النِّسَآءِ مَثْنٰي وَثُلٰثَ وَرُبٰعَ ﴾(البقره)