کتاب: محدث شمارہ 41-40 - صفحہ 33
ذلك المتاخرون (حجة اللّٰه ص ۱۲۸) خاص کر حضرت امام طحاوی نے شرح معانی الآثار میں ’’نظر‘‘ کے تحت اس کے لئے جو راہ ہموار کی ہے متاخر احناف نے اس سادہ سی راہ کو اور کشادہ بنا دیا ہے، ماضی قریب میں شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے احکامِ دینیہ کی حکمت اور فلسفہ بیان کت ہوئے جو اسلوب اختیار کیا ہے، اس سے گو احادیث کارو تو بہت کم ہوتا ہے تاہم اس سے دل کے بجائے دماغ کو زیادہ غذا ملتی ہے جو بہرحال کسی بھی وقت غلط ہو سکتی ہے، پیر رومی کے نزدیک یہ پائے چوبیں ہے۔ اس لئے اکابر اہلِ حدیث کا یہ نظریہ ہے کہ جہاں تک شاہ ولی اللہ محدث کا تعلق ہے اس سے تو ہمیں خصوصی دلچسپی ہے لیکن حکیم، صوفی اور فلسفی شاہ ولی اللہ کی حیثیت سے محترم ہونے کے باوجود وہ ہمارے درد کی دوا نہیں ہیں ۔ متداول عقل و حکمت کے سلسلے میں یہ گزارشات ہم نے صرف اس لے عرض کی ہیں کہ، یہ بلا عام ہے، مولانا موصوف نے بھی اپنی نگارشاتِ عالیہ میں اس سے زیادہ کام لیا ہے۔ جیسا کہ یہاں پر بلکہ روایات کے سلسلے میں مولانا جو تساہل برتتے ہیں ، وہ بھی صرف اسی عقل و درایت کے سہارے پر برتتے ہیں کیونکہ جب آپ اس پہلو سے مطمئن ہو جاتے ہیں تو پھر روایات کی روایتی حیثیت سے بھی وہ بحث کرنے کی ضرورت محسوس نہیں فرماتے جس سے بہرحال ہم مطمئن نہیں ہیں ۔ گویا بالکلیہ ہم اس پہلو کو بھی مسترد نہیں کرتے اور نہ جزوی حد تک ہم اس کی افادی حیثیت کے منکر ہیں لیکن ہم نے یہ محسوس کیا ہے کہ ذہن اور عقل و خرد کے اس کھیت سے وہ صدیق اور قدسی صفات گروہ نہیں ابھر سکتا جو ’’حزب اللہ‘‘ کہلا سکتا ہے، اور ان کے دیکھے سے خدا یاد آسکتا ہے۔ باتوں سے دل تو شاید کوئی موہ لے لیکن دل کی مشعلیں بھی اس سے روشن ہو جائیں ؟ مشکل ہے۔ عہدِ حاضر میں کمی علم و حکمت کی نہیں ہے بلکہ انہی دیوانوں کی ہے۔ جس عقلی دلیل کے ذریعے فقہی کفاءت کا اثبات کیا گیا ہے، ہمارے نزدیک وہی اس کے ابطال کے لئے بھی کافی ہے۔ کفاءت کی تقریباً تقریباً ساری اقسام عہدِ جاہلیت میں بھی پائی جاتی تھی، نہیں تھی تو دینی اور اخلاقی مکرمت کی بات نہیں تھی حالانکہ اصل یہی تھی، اس لئے اسلام نے اسی بات پر زیادہ زور دیا ہے کہ بس اسی کو ملحوظ رکھو کیونکہ عائلی زندگی کی عافیتیں اسی سے وابستہ ہیں ۔ اس کے بغیر حسب و نسب اور جمال کی باتیں ، صرف باتیں ہی رہتی ہیں ۔ بلکہ ہم دیکھتے ہیں کہ فقہی کفاءت کا التزام کرنے کے باوجود اتنی رسوائیاں دیکھی ہیں کہ ’الامان والحفیظ‘ جہاں مسنون کفاءت کو ملحوظ رکھا گیا ہے وہاں یہ ضرور محسوس ہوا ہے کہ نباہ نہ ہو سکنے کے باوجود ’بدتمیزی’ دیکھنے میں نہیں آئی بلکہ یوں ہوا جیسے ایک گرہ تھی، جسے