کتاب: محدث شمارہ 41-40 - صفحہ 32
چوتھی روایت: یہ روایت جیسا کہ مولانا موصوف نے فرمایا ہے، کتاب الآثار (امام محمد)میں ہے لیکن اس کا ایک راوی مجہول ہے۔ سند یہ ہے: اخبرنا ابو حنیفة عن رجل عن عمر ابن الخطاب الحديث (كتاب الاثار باب تزويج الاكفاء) اس لئے یہ روایت بھی قابلِ احتجاج نہیں ہے۔ فقہی کفاءت: یہ تو احادیث کی روایتی حیثیت ہے، باقی رہی معنوی حیثیت؟ سو وہ اس مفہوم میں ناطق نہیں ہیں جو فقہاء یا مولانا موصوف نے بیان کی ہیں ۔ ہمارے نزدیک اس کفو سے مراد ’دین اور لقب‘ میں جوڑے کے مابین مناسب مماثلت ہے! کیونکہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جو تعلیم دی ہے، اسے عملاً بھی متشکل کر کے دکھایا ہے۔ آپ نے قریشی خاتون کی شادی غیر کفو میں اور وہ بھی ایک غلام سے کر دی تھی۔ جب حدیثیں بیان کی جائیں تو ضروری ہوتا ہے کہ ان کی روایتی حیثیت بھی بیان کی جائے، کیونکہ اس کے بغیر نہ طمانیت حاصل ہوتی ہے نہ اتمامِ حجت ہوتا ہے۔ جس کا یہاں التزام نہیں کیا گیا۔ یہ حدیثیں زیادہ تر نصب الرایہ سے ماخوذ ہیں اور اس میں ان کی روایتی حیثیت بھی مذکور ہے۔ عقلی دلیل: عقل و درایت مشعلِ راہ ہے، منزل نہیں ہے اس لئے بیان کردہ احادیث کے سلسلے میں ’وجوہِ طمانیت‘ تلاش کرنا تو مبارک ہوتا ہے۔ لیکن وہ کتاب و سنت پر قاضی نہیں ہوتی۔ حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ سے عقل کے ذریعے کچھ محاکمے منقول ہیں ، مگر وہ قرآن و حدیث کی عدم موجودگی کی بات ہے، گو یہ ایک مقامِ معذرت تھا تاہم ائمۂ دین نے اس کا خیر مقدم نہیں کیا، اور ’’اہل الرائے‘‘ کے نام سے آپ کا ذِ کر کے انہوں نے اپنی ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا ہے۔ امام صاحب کے بعد آپ کے تلامذہ اور مقلدین نے اس کو دلیل بنا کر بہت سے ایسے اصول بنا ڈالے جن کے ذریعے واضح اور صحیح سے پیچھا چھڑانا آسان ہو جاتا ہے: قال الشاہ عبد العزیز محدث الدہلوی۔ من اللطائف التي قلما ظفر بھا جدلي لحفظ مذھبه ما اخترعته المتاخرون لحفظ مذھب ابي حنيفة وھي عدة قواعد يردون بھا جميع ما يحتج به عليھم من الاحاديث الصحيحة (فتاويٰ عزيزيه ص ۷۰) حضرت شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کا نریہ ہے کہ یہ رنگ معتزلیوں کی وجہ سے حنفیوں میں عام ہوا۔ ولا یعلم ان اول من اظھر ذلک فیھم المعتزله وليس عليه بناء مذاھبھم ثم استطاب