کتاب: محدث شمارہ 41-40 - صفحہ 31
امام ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں یہ راوی جھوٹا ہے۔ اسنادہ واہٍ لان فيه مبشر بن عبيد وھو كذاب (الدراية ص ۲۲۲) اس کا دوسرا راوی حجاج ہے، ضعیف بھی ہے اور ضعیف راویوں کے سلسلے میں تدلیس بھی کرتا ہے۔ وھو ضعیف ویدلس علی الضعفاء (نصب الراية ص ۱۹۶/۳) دوسری حدیث: یہ روایت ترمذی اور مستدرک حاکم میں ہے، امام ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں اس کی سند ضعیف ہے۔ اخرجه الترمذي والحاكم باسناد ضعيف (الدراية ص ۲۲۲) امام ترمذی فرماتے ہیں ، یہ روایت غریب ہے، سند متصل نہیں ہے (یعنی منقطع ہے) حديث غريب وما اري اسناده متصلا (ترمذي ص ۱۲۷/۱) کیونکہ محمد بن عمر بن علی بن ابی طالب کا سماع دادے سے ثابت نہیں ہے۔ رواية عن جده مرسلة (تقريب ص ۴۶۳) اگر سند متصل ہو تو اس کی روایت حسن رہتی ہے، صحیح کے درجہ کی نہیں ہوتی۔ قال ابن القطان: فارٰي حديثه حسنا يعني لا يبلغ الصحة (ميزان ص ۶۶۸/۳) اس سے نچلا راوی جُہنی ہے امام ابو حاتم فرماتے ہیں مجہول ہے (تہذیب) تیسری روايت: یہ روایت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مرو ہے، ابن ماجہ، حاکم، بیہقی میں ہے۔ امام سیوطی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ روایت صحیح ہے (جامع صغیر ص ۱۲۹/۱)لیکن یہ بات محلِ نظر ہے کیونکہ اس کا ایک راوی حارث بن عمران جعفری ہے، امام ابنِ حجر فرماتے ہیں یہ ضعیف ہے، ابنِ حبان فرماتے ہیں یہ صاحب حدیثیں گھڑا کرتے تھے (تقریب ص ۸۹)امام ذہبی فرماتے ہیں کہ یہ راوی ضعیف ہے، اصل میں یہ روایت منقطع (مرسل)ہے۔ (میزان ص ۴۳۹/۱) امام زیلعی حنفی فرماتے ہیں یہ روایت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا، حضرت انس رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کی گئی ہے مگر یہ سب ضعیف ہیں اور اپنی تمام سندوں کے ساتھ ضعیف ہیں ۔ وھذا روي من حديث عائشة ومن حديث انس ومن حديث عمر بن الخطاب من طرق عديدة لھا ضعيفة (نصب الراية ص ۱۹۷/۳) جامع صغیر میں بحوالہ ابنِ عدی اور ابن عساکر بھی یہ روایت ذکر کی گئی ہے لیکن ساتھ ہی یہ بھی (ض)نشان لگا دیا ہے یعنی ضعیف ہے ص ۱۲۹/۱)