کتاب: محدث شمارہ 41-40 - صفحہ 28
الانسان عمله (موطا مالك باب جامع القضاء والكراھية) سرزمین پاک میں تشریف لے آئیے! حضرت سلمان رضی اللہ عنہ نے جواب میں لکھا کہ: زمین کسی کو پاک اور مقدس نہیں بناتی، اصل میں انسان کے عمل ہی اس کو مقدّس بناتے ہیں ۔ مکہ اور مدینہ یا سرزمین بیت المقدس سے بڑھ کر اور کون سی جگہ پاک اور مقدس ہو سکتی ہے، لیکن آپ جانتے ہیں کہ لاکھوں ابو جہل، ہزاروں یہودی، اور بے شمار مشرکین ان میں مدفون ہیں ۔ بلکہ آپ سُن کر حیران ہوں گے کہ جہاں مسجد نبوی ہے، یہاں پہلے قبریں تھیں (بخاری باب ھل یُنبش قبور مشرکی الجاھلية)شہر مدینہ مسجد نبوی، نمازی اور امام محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مقتدی اور نمازی ابو بکر و عمر و عثمان وعلی اور دوسرے عشرہ مبشرہ میں سے عظیم صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین۔ بلکہ سب سے محیر العقول یہ ’’حقیقت کبریٰ‘‘ کہ بعد میں خود محبوب رب العٰلمین بھی اِسی جگہ میں ہمیشہ کے لئے آرام فرما ہوئے۔ اور یہ بھی نوید سنائی کہ میرے گھر اور میرے منبر کے درمیان کا ٹکڑا بہشت کی کیاریوں میں سے ایک کیاری ہے۔ ما بین بیتی ومنبری روضة من رياض الجنة (بخاري۔ مسلم۔ ابو ھريره)اس كے باوجود کیا ان بد نصیبوں کو اس کا کچھ فائدہ پہنچا؟ آپ کہیں گے کہ: وہ تو سرے سے مسلمان نہیں تھے، ہم کہتے ہیں کہ، ٹھیک ہے، وہ کافر تھے اس لئے اصل بات انسان کا عمل رہا، اگر یہ نہ ہو تو اس کا کچھ فائدہ نہیں ، گندگی کو جتنا دھوئیں پاک نہیں ہو گی، ہاں میلا کپڑا صاف ہو گا مگر دھونے سے، گناہوں کا میل بھی اپنے اعمالِ صال۹ہ اور توبہ کے صابن سے ہی دُھل سکے ا، اور کسی طرح نہیں ، اس لئے پاک جگہ لے جا کر اسے دفن کیا جائے یا قرآن جیسی پاک کتاب ہمراہ رکھ دی جائے اس سے اس کو کچھ فائدہ نہیں ہو گا۔ مٹی بحیثیت مٹی، تو جو کر سکتی ہے، یہ کرتی ہے کہ عبد مومن کو مرحبا کہتی ہے اور فاجر یا کافر جب اس کی گود میں پہنچتا ہے تو اسے کہتی ہے، دفع ہو۔ لا مرحباً ولا اھلاً پھر اس کی خوب مرمت کرتی ہے۔ (ترمذی، ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ ) وہ زمین پاک ہو یا ناپاک، مقدس ہو یا مطہر بہرحال وہ اپنا فرض اسی طرح ادا کرتی ہے جیسے اسے حکم ہوا ہے۔ اس لئے جو لوگ ’مقدس جگہ‘ کی تلاش میں رہتے ہیں وہ دراصل سستی بخشش کی وہ میں رہتے ہیں ، اگر وہ ویسے ’رحمت‘ کر دے تو وہ مختارِ کل ہے جہاں تک اس کے احکام اور شرائع کا تقاضا ہے، وہ یہی ہے کہ کچھ لے کر جاؤ گے تو کچھ بن جائے گا، ورنہ وہ ’’مفت‘‘ میں دودھ پلانے سے رہی۔ واللہ اعلم۔