کتاب: محدث شمارہ 41-40 - صفحہ 27
اس آیت سے پہلے ہے کہ جن کو تم سمجھتے ہو، پکارو، لیکن وہ تمہارے کسی کام نہیں آئیں گے۔ اس کے بعد فرمایا: کہ جن کو تم پکارتے ہو وہ تو خود رب کے ہاں قرب (الوسیلۃ)حاصل کر رہے ہیں ۔ پھر فرمایا: ﴿وَیَرْجُوْنَ رَحْمَتَه وَيَخَافُوْنَ عَذَابَه ﴾ (ايضًا) اور وہ اس کی رحمت کی امید رکھتے اور اس کے عذاب سے ڈرتے ہیں (احمد رضا خاں ) یعنی جن کو تم اپنی امیدوں کا سہارا سمجھتے ہو، وہ تو خود رب العٰلمین کے در کی آس لگائے بیٹھے ہیں اور مارے ڈر کے کانپ رہے ہیں ، جن کی اپنی حالت یہ ہو۔ وہ تمہارا وسیلہ کیا بنیں گے؟ امام زمخشری حنفی نے (ف ۵۲۸؁ھ)اس کے دو معنی لکھے ہیں ۔ دوسرا یہ ہے کہ: وہ اسی امر کا لالچ کرتے ہیں کہ ان میں سے کون خدا کا زیادہ مقرب بنتا ہے اور یہ طاعت اور خیر و صلاح میں زیادہ سے زیادہ کوشش کے ساتھ۔ فکانه قيل يحرصون اليھم يكون اقرب الي اللّٰه تعالٰي وذلك بالطاعة وازياد الخير والصلاح (كشاف) تفسير جلالین میں بھی اسی معنی کو اختیار کیا گیا ہے: (یبتغون)یطلبون (الي ربھم الوسيلة)القربة بالطاعة (ايھم)بدل من واؤ يبتغون اي يبتغيھا الذي ھو (اقرب)اليه۔ امام بیضاوی (ف ۷۹۱؁ھ)نے بھی اسی مفہوم کو پسند کیا ہے: ھٰؤلاء الالھة يبتغون الي اللّٰه القرابة بالطاعة (ايھم اقرب)بدل من واؤ يبتغون اي يبتغي من ھو اقرب منھم الي اللّٰه الوسيلة فكيف بغير الاقرب (ويرجون رحمته ويخافون عذابه)كسائر العباد فكيف تزعمرن انھم الھة (بيضاوي) حضرت ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ نے واضح فرما دیا ہے کہ یہاں کیا وسیلہ مراد ہے۔ یعنی اسلام اور ایمان قبول کیا ہے (بخاری)یعنی وہ تو اسلام کے ذریعے خدا کے قرب کے حصول کے لئے بیتاب ہیں مگر یہ نادان ہیں کہ ان کے ذریعے قربِ خدا کے متمنی ہیں ۔ بہرحال آیت کا سیاق سباق اور روایت بخاری اس امر میں بالکل واضح ہیں کہ یہاں ’’الوسیلہ‘‘ سے مراد، ’’اہل بدعت‘‘ کا ’’بدعی وسیلہ‘‘ نہیں ہے بلکہ اسلام ہے (فہو المراد) جواب، سوال نمبر ۲: کسی پاک جگہ پر دفن ہونے یا کرنے کا جذبہ برا نہیں لیکں چنداں مفید بھی نہیں ۔ الا ان یشاء اللّٰه ۔ حضرت ابو الدرداء (ف ۳۳؁ھ)رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت سلمان فارسی (ف ۳۵؁ھ)کو لکھا کہ: اَنْ ھَلُمَّ الی الارض المقدسة فكتب اليه سلمان ان الارض لا تقدّس احدا وانما يقدس