کتاب: محدث شمارہ 41-40 - صفحہ 25
قال التور پشتی: ھي في الاصل ما يتوسل به الي الشئ ويتقرب به اليه..... وسيت تلك المنزلة من الجنة بھا لان الراصل اليھا يكون قريباًمن اللّٰه وفائزاً بلقائه (مرقات)
حضرت شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ (ف ۱۱۷۶ھ)نے ان ہی اعمالِ صالحہ اور مسنونہ کا نام ’سکینہ اور وسیلہ‘ رکھا ہے، وہ فرماتے ہیں کہ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ (ف ۳۵ھ)نے حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ (ف ۳۳ھ)کے متعلق جو یہ فرمایا تھا:
انه اقربھم الي اللّٰه وسيلة (وہ دوسرے صحابہ کی بہ نسبت بہ اعتبار ’وسیلہ‘ خدا سے نزدیک تر ہیں )کا مفہوم بھی یہی ہے، ان کے الفاظ یہ ہیں :
وشرع للاول الوضوء ولغسل وللثاني الصلٰوة والاذكار والتلاوة واذاجتمعتا سميناه ’سكينة ووسيلة‘ وھو قول حذيفة في عبد اللّٰه بن مسعود رضي اللّٰه تعالٰي عنھما: لقد علم المحفوظون من اصحاب محمد صلی اللّٰه علیہ وسلم انه اقربھم الي اللّٰه وسيلة (حجة اللّٰه ابواب الاحسان ص ۵/۲)
علامہ سخاوی رحمہ اللہ (ف ۹۰۲ھ)نے امام مادردی اور امام ابو الفرج سے نقل کیا ہے کہ وہ کہتے ہیں حضرت ابو زید ’الوسیلہ‘ کے معنی محبت کے کرتے ہیں۔
اب آئیے! اس سلسلے کی آیات کا ہم مطالعہ کریں :
پہلی آیت:
﴿يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا اتَّقُوْا اللّٰهَ وَابْتَغُوْا اِلَيْهِ الْوَسِيْلَةَ وَجَاھِدُوْا فِيْ سَبِيْلِه﴾ (پ۶۔ المائده۔ ع۶)
اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور اس کی طرف وسیلہ ڈھونڈھو اور اس کی راہ میں جہاد کرو (ترجمہ احمد رضا خاں بریلوی)
اس کے حاشیہ پر جناب نعیم مراد آبادی لکھتے ہیں :
جس کی بدولت تمہیں اس کا قرب حاصل ہو۔ (خزائن العرفان)
اس آیت سے پہلے ذکر ہے جو خدا اور رسول کے دشمن اور تخریب کار ہیں ان کو تہس نہس کر دو یادیس بدر کر دو، ہاں اگر توبہ کر لیں تو اور بات ہے، اس کے بعد مندرجہ بالا آیت کا ذِکر ہے، جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ مسلمانوں سے کہا جا رہا ہے کہ خدا سے ڈرتے رہو، کہیں تم پر یہ آفت نہ آئے، گو اسلام لے آئے ہو لیکن کامل اطمینان کے لئے ضروری ہے کہ خدا کے مقربین میں شامل ہونے کی آپ خوب کوشش کریں ، یعنی قرب الٰہی حاصل ہو گیا تو صرف دنیا کی بات نہیں اگلے جہاں کا کھٹکا بھی نہیں رہے گا۔ بس یہاں ’’الوسیلہ‘‘ سے مراد وہی ’’مقامِ رفیع‘‘ ہے جو جنت میں ہے یا وہ اعمالِ صالحہ ہیں ، جو اس ’نبوی الوسیلۃ‘ تک پہنچنے کا ذریعہ ہیں ۔ ان سے بہرحال اہلِ بدعت کا وسیلہ مراد نہیں ہے، کیونکہ ان