کتاب: محدث شمارہ 41-40 - صفحہ 24
سب کچھ خدا سے مانگ لیا تجھ کو مانگ کر اُٹھتے نہیں ہیں ہاتھ میرے اس دعا کے بعد قرب بادشاہ کے بعد ملک میں اور کسی شے کی حسرت باقی نہیں رہتی، کیونکہ اس کے بعد جو چاہو مل جاتا ہے۔ ۲۔ اس کے دوسرے معنی ہیں ، طاعت اور عبادت کے ذریعے قرب و وصال کے حصول کے لئے جدوجہد کرنا۔ امام ابو البرکات نسفی حنفی (ف ۷۱۰؁ھ)لکھتے ہیں : استعیرت لما یتوسل بهالي اللّٰه تعالٰي من فعل الطاعات وترك السيئات (مدارك) حضرت ابن عباس (ف ۶۸؁ھ)فرماتے ہیں : طلبوا الیه القرب في الدرجات بالاعمال الصالحة امام ....... (ف ۵۰۲؁ھ)فرماتے ہیں : حقيقة الوسيلة الي اللّٰه تعالٰي مراعاة سبيله بالعلم والعبادة وتحوي مكارم الشريعة وھي كالقربة (مفردات) امام بیضاوی (ف ۷۹۱؁ھ)لکھتے ہیں : ای ما نتوسلون به وثوابه وانزلفي منه من فعل الطاعات وترك المعاصي (تفسير انوار التنزيل) جلالین میں ہے: ما يقربكم اليه من طاعته (جلالين) امام رازی (ف ۶۰۶؁ھ)لکھتے ہیں : فالمراد طلب الوسيلة اليه في تحصيل مرضاته وذلك بالعبادات وبالطاعات (تفسير كبير) ان سب عبارتوں کا حاصل وہی ہے جو ہم نے شروع میں لکھا ہے، لیکن ان کا بھی خلاصہ یہی نکلتا ہے کہ: اعمال صالحہ کے ذریعے وہ مقامِ قرب حاصل کرنے کی کوشش کی جائے جو ’الوسیلة‘ كے نام سے مشہور ہے، گو تنہا اس كے مکین حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ذاتِ گرامی ہو گی، لیکن وہ بالا صالۃ ہوں گے باقی رہا بالتبع؟ سو دوسروں کے لئے بھی یہ ممکن ہے، کیونکہ دوسروں کے لئے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ’’معیت‘‘ کا ذِکر احادیث اور قرآن میں ملتا ہے: شارح مصابیح علامہ تور پشتی (ف ۶۰۰؁ھ)نے الوسیلہ کی جو وجہ تسمیہ بتائی ہے اس سے بھی یہی مترشح ہوتا ہے کہ تمام طاعات کا حاصل یہی قربِ الٰہی ہے جو ’’الوسیلۃ‘‘ کے نام سے مشہور ہے: ملا علی قاری حنفی مکی (ف ۱۰۱۴؁ھ)لکھتے ہیں :